23 مارچ ، 2020
کورونا وائرس۔ ایک ایسا وائرس جس کا سائز شاید ایک نقطے کے بھی ہزارویں حصے کے برابر ہوگا مگر اس نے ساری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ جو اپنی ترقی پر گھمنڈ کرتے تھے، جن کو اپنی طاقت پر ناز تھا، جو اپنی معاشی اور فوجی قوت اور نت نئی ایجادات پر اتنے اِتراتے تھے کہ جیسے اُن کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا، یہاں تو ایسے بھی تھے جو انسان کی لمبی زندگی اور موت کو شکست دینے کے خواب دیکھ رہے تھے...
سب کو ایک وائرس، ایک چھوٹے سے وائرس نے لاک ڈائون پر مجبور کر دیا، انسان دوسرے انسان سے ڈرنے لگا، ایک دوسرے سے فاصلے پر رہنے کی ہدایات دی جانے لگیں، ہر کوئی دوسرے سے اس طرح ڈرنے لگا جیسے موت سے ڈرتا ہے، انسان تو انسان‘ ہر کسی کے دماغ میں یہ بات ڈال دی گئی ہے کہ کسی شے کو بھی ہاتھ لگایا تو کورونا وائرس حملہ کر دے گا۔ وہ موت جسے ہم بُھلا بیٹھے تھے، ایک وائرس نے سب کو یاد کرا دی ہے۔
دنیا بھر کے سائنسدان دن رات کوشش کر رہے ہیں کہ اس مرض کا علاج ڈھونڈا جائے، کوئی ویکسین تلاش کی جائے لیکن ابھی تک کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ امریکہ ہو، برطانیہ، کینیڈا ہو یورپ یا کوئی دوسرا ملک‘ سب کو اپنی اپنی پڑی ہے، بڑی بڑی معاشی قوتیں کمزور اور بےبس ہو کر ہچکولے کھا رہی ہیں، اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار کو دنیا بھر میں ایسی مندی کا سامنا ہے جس کا کبھی کسی نے سنا نہ دیکھا۔
تقریباً ہر قسم کی تجارت اور کاروبار رُک چکا ہے۔ نفسانفسی کا ایسا عالم ہے کہ یقین نہیں آتا کہ یہ وہی دنیا ہے جو چند ماہ پہلے تک ہمارے سامنے تھی۔ تقریباً ہر ملک اپنے آپ کو دوسرے ممالک سے اس انداز میں کاٹ رہا ہے کہ جیسے کسی سے کبھی کوئی نہ تعلق رہا ہو نہ ہی آئندہ رکھنا ہو۔
ملک ملک سے جدا ہو رہے ہیں، انسان انسان سے دور ہو رہا ہے، یہاں تک کہ اگر کسی خاندان کے فرد کو یہ وائرس لگ جائے تو اُس کے خاندان کے لوگ اُسے علیحدہ کر دیتے ہیں اور اس کی وجہ صرف موت کا ڈر ہے۔
میرے رب کے پیدا کردہ ایک وائرس نے دنیا کو بدل کر دکھ دیا ہے۔ اس وائرس نے انسان کو اُس کی حیثیت یاد دلا دی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ وائرس اتنا مہلک نہیں کہ جسے لگے اُسے موت کی نیند سلا دے، سب کو معلوم ہے کہ اس وائرس سے افراد کے مرنے کی شرح صرف دو سے سات فیصد ہے لیکن اس کا خوف ایسے پھیلا ہوا ہے جیسے ہمیں صرف کورونا سے ہی موت آنی ہے اور اگر ہم کورونا سے بچ گئے تو پھر جیسے موت سے بھی بچ جائیں گے۔
حالانکہ موت برحق ہے۔ حقیقت میں کورونا سے مرنے کے امکانات صرف چند فیصد ہیں لیکن یہ بات سو فیصد یقینی ہے کہ ہم میں سے ہر ایک کو موت آنی ہے۔ کسی کی موت کا بہانہ کورونا بنے گا تو کسی کی جان کسی دوسرے بہانے سے نکالی جائے گی۔ کاش! ہم کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال سے سبق حاصل کریں اور یقیناً وہ لوگ کامیاب اور خوش قسمت ہیں جو کورونا کی وجہ سے اپنے ﷲ کے قریب ہو گئے۔
یہ وائرس عذاب ہے یا آزمائش‘ اس سے ہمیں سبق لینا چاہیے۔ اس میں تمام انسانوں کے لیے سبق ہے اور ہم مسلمانوں کے لیے موقع بھی کہ ہم اپنا محاسبہ کر سکیں کہ کہاں کہاں ہم نے اپنے رب کو ناراض کیا۔
کورونا وائرس نے مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بند کر دیا، بہت سی مسجدوں کو تالے لگ گئے۔ یہ سن کر اور دیکھ کر دل دکھی ہوتا ہے!!!
ان حالات میں کیا کیا جائے؟؟ اس کا جواب بھی اسلام ہی دیتا ہے۔ آزمائش اور مشکل کے وقت صبر کریں اور نماز پڑھیں۔ احتیاط ضرور کریں، جو حکومت کہے اور جو ڈاکٹرز تجویز کریں اُس پر بھی عمل کریں لیکن اپنے آپ پر خوف مت طاری ہونے دیں۔ اس بات پر یقین رکھیں کہ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کورونا سے ڈرنا ہے نہ گھبرانا۔
بلکہ اس کورونا نے جو سبق دیا اُسے سمجھیں اور اُس کے تناظر میں اپنی اپنی زندگیوں کو اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں بہتر بنائیں تاکہ ہم سے ہمارا رب راضی ہو جائے۔
اس صورتحال میں جہاں کاروبار ٹھپ ہو چکے ہیں ہمیں اُن اپنے بہن بھائیوں، رشتہ داروں، عزیز و اقارب، ہمسایوں، غریبوں، مسکینوں، دیہاڑی داروں کو بھی ہر حال میں یاد رکھنا چاہیے جن کو معاشی طور پر تنگی کا سامنا ہے۔ کورونا سے ڈرنا نہیں بلکہ سبق لینا ہے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔