23 اپریل ، 2020
حکومت نے جن شرائط کی بنیاد پر ملک بھر کی مساجد میں نماز، تراویح اور نمازِ جمعہ کی مشروط اجازت دی تھی تقریباً وہی شرائط عالمی ادارۂ صحت (WHO) کی رمضان المبارک سے متعلق جاری ہدایات میں شامل ہیں۔
اب مسئلہ یہ ہے کہ ان شرائط پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بنایا جائے گا، کیونکہ اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اگر ان شرائط پر عمل نہ کیا گیا اور کسی بھی طرح کی بے احتیاطی برتی گئی تو کورونا وائرس بہت زیادہ پھیل سکتا ہے جس سے اَن گنت انسانی جانوں کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ یہ وہ معاملہ ہے جس پر حکومت کیساتھ ساتھ علمائےکرام پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ طے شدہ شرائط پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے جو بہرحال ایک مشکل کام ہوگا۔
جب سے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈائون کا اعلان ہوا ہے، میں صرف ایک بار اپنے علاقے کی مسجد میں نمازِ جمعہ کے لیے گیا ہوں لیکن مجھے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ نہ تو مسجد کے اندر بچھے قالین اٹھائے گئے تھے اور نہ ہی نمازیوں کے درمیان فاصلہ موجود تھا۔ ہاں! یہ ضرور تھا کہ اکثر نمازیوں نے ماسک پہن رکھے تھے اور ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے سے بھی گریز کیا جا رہا تھا، لیکن کئی ایسے نمازی بھی موجود تھے جنہوں نے کوئی ماسک نہیں پہن رکھا تھا۔
رمضان المبارک کے دوران مسجدوں میں نمازیوں کا رش بڑھ جاتا ہے اور نمازِ تراویح میں بھی لوگ کافی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔ اس بار ممکنہ طور پر اتنا رش تو نہیں ہو گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت اور علماء کی طرف سے کوئی ایسا میکنزم طے کیا گیا ہے کہ ہر مسجد میں نماز پڑھنے والوں کو متفقہ شرائط پر عمل درآمد کرنے کا پابند بنایا جائے۔ اگر معاملہ صرف مساجد کے آئمہ حضرات اور نمازیوں پر چھوڑ دیا گیا تو پھر طے شدہ شرائط کی بہت بڑی تعداد میں خلاف ورزی کا امکان موجود رہے گا جو ایک خطرناک صورتحال ہوگی۔
چند دن قبل صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی کی زیرصدارت مشائخ اور علماء کرام کے اجلاس میں کورونا وائرس کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں رمضان المبارک کے دوران نمازِ تراویح اور نمازِ جمعہ سے متعلق 20نکاتی متفقہ اعلامیہ جاری کیا گیا تھا جس کے مطابق صف اور نمازیوں کے درمیان چھ فٹ کا فاصلہ رکھا جائے گا، پچاس سال سے زائد العمر افراد اور بچوں کو مساجد میں داخلے کی اجازت نہیں ہو گی، نمازی ایک دوسرے سے ہاتھ ملائیں گے نہ گلے ملیں گے، دریاں، چٹائیاں، قالینیں نہیں بچھائی جائیں گی۔
ہر نماز سے پہلے فرش کو کلورین سے دھویا جائے گا، نمازی مخصوص نشانات پر کھڑے ہوں گے، جماعت مسجد کے احاطے میں ہو گی، سڑکوں اور فٹ پاتھ پر نہیں، نمازی وضو گھر سے کر کے آئیں گے، نزلہ زکام کا مریض مسجد نہیں آئے گا جبکہ شرائط پوری نہ ہونے پر حکومت کارروائی کر سکے گی۔ حکومت اور علمائے کرام نے شرائط بھی طے کر لیں، اعلان بھی کر دیا لیکن کوئی میکنزم یا طریقہ کار طے نہیں ہوا کہ کس طرح سے ان شرائط پر عملد درآمد کروایا جائے گا، اس میں علماء اور وفاق المدارس کا کیا کردار ہو گا اور حکومت کیا کرے گی۔
میری حکومت اور علماء کرام سے گزارش ہو گی کہ ابھی رمضان میں دو دن باقی ہیں، اس لیے وہ طریقہ کار وضع کر دیا جائے جو طے شدہ شرائط پر عمل درآمد کو یقینی بنائے۔ وگرنہ ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں کی اہم مساجد کی حد تک تو ان شرائط پر عمل درآمد ہوتا نظر آئے لیکن باقی جگہوں پر ان شرائط پر عمل نہ ہو۔
ویسے حکومت اور علمائے کرام کو ان حالات میں عوام سے بھی یہ اپیل کرنی چاہیے کہ لوگ نمازِ تراویح اپنے گھروں میں ہی ادا کریں تاکہ مساجد میں آنے والوں کی تعداد کم سے کم رہے۔ اگر ایسا نہ ہوا اور خدا نخواستہ کورونا سے پاکستان میں اموات کی شرح بڑھ جاتی ہے تو مجھے ڈر ہے کہ اس کا الزام کہیں اسلامی طبقہ پر ہی نہ ڈال دیا جائے۔
پہلے ہی ایسی باتیں کی جا رہی ہیں اور میڈیا کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش ہو رہی ہے کہ مسجدوں کو کھولنے کے حکومتی فیصلہ سے یہاں بہت تیزی سے کورونا وائرس پھیل سکتا ہے۔ ان حالات میں مَیں تو تمام نمازیں اور تراویح ان شاء اللہ اپنے گھر پر ہی ادا کروں گا اور اپنے رب سے اس وبا کے ٹلنے کی دعا کرتا رہوں گا تاکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بند دروازے دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے جلد از جلد کھل جائیں اور ہماری مساجد پھر سے پوری طرح آباد ہو جائیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔