30 اپریل ، 2020
کورونا کے مریضوں سے بھرے اسپتالوں کے فضلے نے کورونا پھیلاؤ کے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔
ملک کے صرف گنتی کے اسپتال ہی استعمال شدہ مختلف چیزوں کے فضلے کو انتہائی درجہ حرارت پر تلف کرنے کی صلاحیت سے لیس ہیں جب کہ بیشتر اسپتال فضلے کو روایتی انداز میں ہی ٹھکانے لگا رہے ہیں۔
کراچی کے جناح اور سول اسپتال کے علاوہ بیشتر اسپتالوں کا فضلہ گٹر باغیچے میں پھینکا جارہا ہے۔
پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اسلام آباد کا فضلہ بھی کھلی فضا میں موجود ہے جس کے 50 فٹ کے فاصلے پر پرائمری اسکول بنا ہوا ہے۔
لاہور کے میو اسپتال میں کچرا تلف کر نے کی مشین 'انسینریٹر' موجو ہے جب کہ جناح، گنگا رام، اور لیڈی ویلڈن اسپتال اپنا فضلہ پرائیوٹ کمپنی کو دینے پر مجبور ہیں۔
دوسری جانب کوئٹہ کے سول اسپتال میں کوئی انسینریٹر نہیں اور بولان اسپتال کا انسینریٹر فعال نہیں ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں کورونا کے کیسز کی تعداد 16 ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جب کہ 361 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
ملک بھر میں پہلے ہی طبی سہولیات کی کمی ہے اور کورونا کی وبا کے باعث شعبہ صحت شدید دباؤ کا شکار ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شہر کے بڑے اسپتالوں میں انسینریٹرز نہ ہونے کی وجہ سے کورونا سمیت دیگر امراض پھیلنے کا خدشہ ہے۔