07 مئی ، 2020
4مئی دوپہر سوا بارہ بجے شہباز شریف کی گاڑی نیب دفتر لاہور میں داخل ہوئی، کیس تھا آمدنی سے زیادہ اثاثوں اور منی لانڈرنگ کا، وہ تیسری طلبی پر پہلی بار پیش ہونے آ رہے تھے، ذرائع بتائیں، شہباز شریف گاڑی سے اترے، انہیں سیدھا انویسٹی گیشن روم لے جایا گیا، مگر ان کے آنے سے پہلے انویسٹی گیشن روم میں اینٹی کورونا اسپرے ہو چکا تھا۔
5رکنی نیب انویسٹی گیشن ٹیم چہروں پر ماسک، ہاتھوں میں دستانے پہن چکی تھی، شہباز شریف کی کرسی کے سامنے میز پر سینی ٹائزر، ٹشو کا ڈبہ رکھا جا چکا تھا، کمرے میں کرسیاں اس ترتیب سے لگائی گئیں کہ ایک سے دوسرے شخص کا فاصلہ کم از کم 3فٹ رہے، شہباز شریف کمرے میں داخل ہوئے اور اس سے پہلے کرسی پر بیٹھتے۔
ان کا ذاتی ملازم تیزی سے آگے آیا، جس کرسی پر شہباز شریف نے بیٹھنا تھا اس کرسی پر اسپرے کیا، کرسی کے سامنے میز کا وہ حصہ جہاں خادم اعلیٰ نے ہاتھ رکھنا تھے، وہاں اسپرے کیا، شہباز شریف کرسی پر بیٹھے، نیب ٹیم کرسیوں پر بیٹھی، رسمی علیک سلیک، سوال و جواب شروع ہو گئے۔
نیب دفتر میں شہباز شریف کی یہ آؤ بھگت کا احوال سنتے مجھے بار بار ڈاکٹر فرقان یاد آئے، دو گھنٹے ایک وینٹی لیٹر کی تلاش، کراچی کے ہر اسپتال کا دروازہ کھٹکھٹانا، بوڑھی ماں، صدمے سے نیم بے ہوش، بیوی اور 4بیٹیوں کے سامنے تڑپ تڑپ کر جان دے دینا۔
ایک طرف ایک مرتا ڈاکٹر، وینٹی لیٹر نہیں، دوسری طرف ایک ملزم، یہ خاطریں، شہباز شریف آؤ بھگت کا احوال سنتے مجھے پروفیسر میاں جاوید یاد آئے، جو نیب جوڈیشل ریمانڈ پر، ہارٹ اٹیک ہوا، کاغذی کارروائی پوری ہونے سے پہلے ہی مر گئے، مرنے کے بعد بھی لاش ہتھکڑیوں سے جکڑی ہوئی، شہباز شریف آؤ بھگت کا سنتے مجھے یونیورسٹیوں کے وہ بابے استاد یاد آئے۔
جنہیں نیب نے ہتھکڑیاں لگا دیں، جیلوں میں بند 5189جان لیوا بیماریوں میں مبتلا وہ قیدی یاد آئے، جو کورونا وبا میں اﷲ توکل پر بیٹھے ہوئے۔
بات کہاں سے کہاں نکل گئی، بات ہو رہی تھی شہباز شریف نیب پیشی کی، ذرائع بتائیں، یہ پیشی 2گھنٹے 10منٹ کی، 44 کے قریب سوال پوچھے گئے، خادم اعلیٰ چار سوالوں کے جواب بھی ٹھیک طرح سے نہ دے پائے، کیوں نہ دے پائے۔
سوال کیا تھے، جواب کیا تھے، نمونے کے طور پر پانچ سات مبینہ سوال، ان کے جواب حاضرِ خدمت، نیب ٹیم نے پوچھا، آپ کے بچوں، اہل خانہ کے اثاثے اتنے زیادہ، کیوں، جواب ملا، میں اپنی اولاد، اہل خانہ کا ذمہ دار نہیں، جو کچھ ان سے متعلق وہ انہی سے پوچھیں، نیب ٹیم نے کہا، بچے رہنے دیں، آپ کی بیگمات تو گھریلو خواتین ان کا کوئی کاروبار نہیں۔
آپ کے زیر کفالت، ان کے پاس دولتیں کہاں سے آ گئیں، جواب ملا، میں ان کا ذمہ دار نہیں، جو کچھ ان سے متعلق وہ انہی سے پوچھیں، نیب ٹیم کے ایک رکن نے کہا، جس بلٹ پروف لینڈ کروزر پر آپ آئے، یہ شریف فیڈز مطلب آپ کے بچوں کے نام پر رجسٹرڈ، شہباز شریف بات کاٹ کر بولے، تو کیا میں اپنے بچوں کی گاڑی استعمال نہیں کر سکتا، نیب ٹیم رکن نے کہا، کر سکتے ہیں لیکن اسی طرح آپ بچوں کی دولت بھی استعمال کر سکتے ہیں۔
اچھا یہی بتا دیں، یہ گاڑی کیسے خریدی، جواب آیا، میں کہہ چکا جو کچھ میرے بچوں سے متعلق وہ انہی سے پوچھیں۔شہباز شریف سے پوچھا گیا، آپ کے نام پر یہ جائیدادیں، اثاثے یہ کہاں سے آئے، جواب دیا، مجھے وراثت میں ملے، نیب ٹیم نے ہاؤس آف شریفس کا وراثت معاہدہ شہباز شریف کے آگے رکھ کر کہا، اس حساب سے تو 2009ء میں آپ کے حصے میں صرف رمضان شوگر مل آئی۔
باقی ملیں، فیکٹریاں، کمپنیاں، پیسے، زمینیں کہاں سے آئیں، شہباز شریف وراثت معاہدہ دیکھ کر حیران رہ گئے، بولے، اچھا یہ آپ کے پاس بھی، لیکن اس سوال کا جواب، میں اپنا ریکارڈ دیکھ کر اگلی پیشی پر دوں گا، نیب ٹیم نے پوچھا، لندن میں آپ کے پاس 4فلیٹس تھے، دو بیچ دیے، دو اب بھی ہیں، یہ چاروں فلیٹس خریدنے کیلئے پیسے کہاں سے آئے، شہباز شریف کا جواب تھا، بینکوں اور دوستوں سے قرضہ لیا۔
نیب ٹیم نے پوچھا، بینکوں سے ادھار لینے کا ریکارڈ، شہباز شریف بولے، آپ کیسی باتیں کر رہے، برطانیہ میں کورونا قیامت آئی ہوئی، سب ادارے بند، آپ ریکارڈ مانگ رہے، نیب ٹیم نے کہا، آپ کورونا سے پہلے بھی لندن ریکارڈ لینے گئے تھے، کیوں نہ لا سکے، جواب دیا، اگلی مرتبہ لندن جا کر ریکارڈ لے آؤں گا، نیب ٹیم نے کہا، اچھا ان دوستوں کے نام بتا دیں، جن سے قرضہ لیا، چند لمحے سوچ کر شہباز شریف بولے، ابھی یاد نہیں آرہا، اگلی مرتبہ بتا دوں گا۔
شہباز شریف سے پوچھا گیا، آپ کے خاندان کو ایک ارب سے زیادہ دولت ٹی ٹیوں سے آئی، ٹی ٹیاں بھیجنے والوں میں وہ بھی جنہوں نے لندن، دبئی سے ٹی ٹیاں بھیجیں، مگر انہوں نے لندن، دبئی کیا جانا تھا، ان کے تو پاسپورٹ بھی نہیں بنے ہوئے تھے۔
یہ سب کیا ہے، شہباز شریف بولے، یہ سب انہی سے پوچھیں، جنہوں نے ٹی ٹیاں بھجیں، نیب ٹیم نے کہا، اچھا یہ ہی بتائیں، آپ پارٹی صدر، آپ نے پارٹی فنڈز کے نام پر اپنے ملازمین کے اکاؤنٹس کھلوا رکھے تھے، جو پارٹی فنڈز دیتا، پیسہ ان ملازمین اکاؤنٹس میں جاتا، بعد میں وہ کیش نکال کر آپ تک پہنچاتے، ان میں سے کچھ ملازمین ہمارے پاس گرفتار، وہ یہ مان چکے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا، مجھے کیا پتا، آپ انہی ملازمین سے پوچھیں کہ انہوں نے پارٹی فنڈز کے نام پر کیوں اکاؤنٹس کھول رکھے تھے۔
یہ تھے دو چار سوال، ان کے جواب، آپ کو اندازہ ہو ہی گیا ہوگا کہ ایک دھیلے کی کرپشن نہ کرنے والے خادم اعلیٰ کی عملی پرفارمنس کیا بتا رہی، گو کہ فنانشل مانیٹرنگ یونٹ رپورٹ، مشکوک 20کروڑ اکاؤنٹس منتقلی ریکارڈ اور 5مشکوک ٹرانزکشنز کاغذات دیکھ کر شہباز شریف پریشان، لاجواب ہوئے، مگر ان کی پالیسی سپرہٹ، میں نہ مانوں، جو کرنا ہے کر لیں، جو پوچھنا ہے پوچھ لیں، میرا ایک ہی جواب، میں نہ مانوں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔