09 مئی ، 2020
غالباً 2011کی بات ہے۔ ایک دن محترم عمران خان صاحب نے مجھ عاجز سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ آج کل وہ اپنی نئی کتاب کے وار آن ٹیرر اور افغانستان کے حوالے سے خصوصی ابواب لکھ رہے ہیں، جس کے لئے وہ کچھ ایشوز پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
اگلے روز وہ ملنے میرے جیو کے دفتر تشریف لائے۔ وہ سوال کرتے رہے اور میں جواب دیتا رہا۔ وہ نوٹس لیتے رہے اور نشست کے اختتام پر ان کے الفاظ یہ تھے (چوہدری خالد عمر اِس کے گواہ ہیں) کہ اس گفتگو کے نتیجے میں ان کے خیالات بہت تبدیل ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج کی اس دو گھنٹے کی نشست سے ان کی تشفی نہیں ہوئی لہٰذا ہمیں اگلے روز دوبارہ ملنا چاہئے۔
اگلے روز میں ایمبیسی روڈ پر واقع ان کے دفتر حاضر ہوا اور ان موضوعات پر مزید ڈسکشن کی، عمران خان صاحب کی یہ کتاب کچھ عرصہ بعد انگریزی زبان میں ’’پاکستان۔ اے پرسنل ہسٹری‘‘ کے نام سے چھپ کر مارکیٹ میں آگئی لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب دیکھا کہ افغانستان اور وار آن ٹیرر سے متعلق جن امور پر ہمارا اتفاق ہوا تھا، کتاب میں اس کے بالکل برعکس خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔
بعدازاں معروف صحافی ہارون الرشید صاحب نے اس کا اردو ترجمہ ’’میں اور میرا پاکستان‘‘ کے نام سے کیا۔ گزشتہ روز اپنی لائبریری میں اس کتاب پر نظر پڑی تو سوچا کہ ایک بار پھر پڑھ کر جان لوں کہ 2012اور آج کے عمران خان کے خیالات میں کتنا فرق آیا ہے۔
باقی اقتباسات پھر کبھی لیکن آج کے کالم میں صرف میڈیا اور آزادیٔ اظہار سے متعلق ان کے اس وقت کے خیالات ملاحظہ کیجئے۔
اقتباس1: ’’مشرقی پاکستان کی ٹیم کے کپتان اشرف الحق نے، جو بعد میں میرا دوست بن گیا، ایک رات کھانے پر مجھے ان تلخ احساسات کے بارے میں بتایا جواب چاروں طرف جھلک رہے تھے ۔ اس نے کہا: مجھ ایسے لوگ پاکستان سے وابستہ رہنے کے خواہشمند ہیں بشرطیکہ ہمارے حقوق ہمیں دیے جائیں وگرنہ آزادی کی فعال تحریک اُٹھ کھڑی ہوگی۔
یہ بات سن کر میں ہکا بکا رہ گیا اس لئے کہ ہمیں تو حالات کا اندازہ ہی نہ تھا۔ یہ مغربی پاکستان کے پریس پر سنسر کا نتیجہ تھا۔ اس کے باوجود مجھے اور میرے دوستوں کو یہ خیال نہ آیا کہ ملک ٹوٹ بھی سکتا ہے‘‘۔ (میں اور میرا پاکستان : صفحہ50)
اقتباس 2: ’’کرکٹ کی زندگی کا آغاز تھا۔ 1971کے موسم گرما میں انگلینڈ کے خلاف پاکستان کی طرف سے میں نے پہلا میچ کھیلا۔ سنسرزدہ اخبارات اور سرکاری ٹی وی سے دور، پہلی بار عالمی پریس تک رسائی ہوئی۔ ایک طرف پاکستانی فوج کے ہتھیار ڈالنے کا منظر، دوسری طرف ہم سے منسوب قتلِ عام، بے پناہ صدمہ تھا۔
افواج اور حکومت ہمیں بتاتے رہے کہ آخری سانس تک وہ لڑیں گے۔ شکست سے 24گھنٹے قبل میرے قبیلے کے جنرل نیازی نے بی بی سی کو انٹرویو دیا کہ آخری آدمی تک وہ مقابلہ کریں گے پھر ہتھیار ڈالنے کا منظر، اذیت سے دوچار کرنے والی پست ہمتی اور قلق لے کر آیا۔ ملک کے مستقبل پر اعتماد متزلزل ہونے لگا۔ دوسروں کی طرح میں نے بھی سرکاری پروپیگنڈے پر یقین کر لیا تھا کہ مقابل جنگجو دہشت گرد اور بھارت کی پشت پناہی سے بروئے کار آنے والے باغی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ ہم انہیں بھارت کا ایجنٹ ہی سمجھتے تھے۔ یہی اصطلاحات اب قبائلی علاقوں اور بلوچستان کے بارے میں برتی جاتی ہیں‘‘۔ (میں اور میرا پاکستان صفحہ 51)
اقتباس 3: ’’کم از کم میرے ساتھ آج بھی بعض اخبار نویسوں اور نام نہاد دانشوروں اور لیڈروں کا طرزِ عمل یہی ہے۔ کبھی وہ میرے مکان کی قیمت 120ارب روپے بتاتے ہیں۔
کبھی یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میں نے پرویز مشرف سے سمجھوتا کر لیا ہے۔ کبھی وہ مجھے پاکستانی فوج کا خفیہ حامی بنا کر پیش کرتے ہیں، جس کے سوات اور وزیرستان میں اقدامات کی مجھ سے بڑھ کر کسی لیڈر نے مخالفت نہیں کی اور اب بھی کررہا ہوں لیکن پھر بھی انہی الزامات کی یلغار ہے۔
ان کردارکشی کرنے والوں میں سے بعض مخالف سیاسی پارٹیوں کے تنخواہ دار ہیں‘‘۔ ( صفحہ 177)
اقتباس 4: ’’مکہ کے لوگوں (کفارِ مکہ) نے انسانی تاریخ کے سب سے سچے آدمی کو آزادیٔ اظہار کا حق دینے سے انکار کیا حالانکہ وہ خود انہیں صادق و امین کہتے تھے۔ مدینہ منورہ کی ریاست قائم ہوئی تو ہر ایک کو اپنی بات کہنے کے پورے مواقع مہیا کردیے گئے۔
رسول کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ میری امت میں اختلاف باعثِ رحمت ہے۔ آزادیٔ فکر کے ہی اعجاز نے اسلامی تہذیب کو فروغ دینے کے لئے سازگار ماحول پیدا کیا‘‘۔ (صفحہ 333)
پہلے اقتباس میں عمران خان فرما اور سمجھا رہے ہیں کہ میڈیا سنسر شپ کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوا۔ اُس وقت اگر آزاد میڈیا کے ذریعے زمینی حقائق سامنے آتے تو مشرقی پاکستان کا سانحہ رونما ہوتالیکن اب نجانے اپنے اقتدار میں وہ میڈیا کو صرف سرکاری سچ بولنے اور دکھانے پر کیوں مجبور کررہے ہیں؟
دوسرے اقتباس میں عمران خان ہمیں بتارہے ہیں کہ مشرقی پاکستان کے لوگ ریاست سے ناراض ہو گئے تھے لیکن سرکار ہمیں بتارہی تھی کہ یہ تو چند ہندوستانی ایجنٹ ہیں جو گڑبڑ کررہے ہیں۔
خان صاحب کے اس تجزیے سے کوئی احمق ہی اختلاف کر سکتا ہے لیکن اب نجانے ان کی حکومت میں ریاست سے ناراضی کا اظہار کرنے والوں کے بارے میں بھارتی اور افغانی ایجنٹ کے فتوئوں کا سلسلہ کسی بھی دوسرے دور سے زیادہ کیوں ہے؟
ان کے وہ وزیر اور مشیر (جو بدقسمتی سے پختون بھی ہیں) جو روزانہ ناراض بلوچوں اور پختونوں کو ان القابات سے نواز رہے ہیں تو نجانے خان صاحب ان کو روکتے کیوں نہیں؟
تیسرے اقتباس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ جو صحافی ان پر اس شک کا اظہار کررہے تھے کہ وہ فوج کے خفیہ حامی ہیں تو وہ صحافی مخالف سیاسی پارٹیوں کے تنخواہ دار ہیں۔ تب ان صحافیوں کی صف میں مَیں بھی شامل تھا جو خان صاحب کے بارے میں یہ شک کررہا تھا لیکن یہ فیصلہ چلو قوم پر چھوڑتے ہیں کہ اس وقت شک کا اظہار کرنے والا صحافی درست تھے یا پھر خان صاحب لیکن سب سے اہم بات انہوں نے چوتھے اقتباس میں کی ہے۔
اس میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ حق بات پہنچانے کے لئے آزادی اظہار پر اصرار پیغمبرﷺ کی سنت ہے جبکہ آزادیٔ اظہار پر قدغن لگانا کفارِ مکہ کی۔ پھر وہ ریاستِ مدینہ کی اہم ترین صفت بجا طور پرآزادی اظہار قرار دے رہے ہیں جہاں ہر ایک کو بغیر کسی خوف کے اپنی بات کہنے کے مواقع میسر ہوں۔
خان صاحب حدیث کا حوالہ دے کر مسلمانوں کو سمجھا رہے ہیں کہ دنیا میں اسلامی تہذیب کا فروغ بھی اسی آزادیٔ اظہار کا مرہون منت ہے۔
حیران ہوں کہ میڈیا اور آزادی اظہارِ رائے سے متعلق خان صاحب کے خیالات حکمران بننے کے بعد یکسر الٹ کیوں ہو گئے؟ شاید یہ وجہ ہو کہ اس وقت ان کی اٹھک بیٹھک ہارون الرشید، مجیب الرحمٰن شامی اور عامر ہاشم خاکوانی جیسے صاحبِ علم لوگوں کے ساتھ تھی جبکہ اب وہ شہباز گلوں میں پھنس گئے ہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔