17 فروری ، 2020
جب بات کالے قوانین کے ذریعے میڈیا کو’روکنے‘ کی ہو تو عمران خان کی حکومت بھی ماضی کی حکومتوں سے مختلف نہیں ہے۔ حکمران جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو آزاد میڈیا کو پسند کرتے ہیں اور جب اقتدار میں ہوتے ہیں تو اسی سے نفرت کرتے ہیں۔
’خفیہ ریگولیشنز‘ کے ذریعے سوشل میڈیا پر پابندیاں عائد کرنے کی حالیہ کوشیشوں کا مقصد اختلافی آوازوں کو چیک کرنا ہے جن پر پہلے ہی غیرسرکاری طور پر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیریا میں پابندی عائد کردی گئی ہے۔
تحقیقات سے انکشاف ہوا ہے کہ کچھ مضبوط آوازیں سامنے آئیں اور ان کی تقاریر اور عوامی جلسوں پر پابندی کے باوجود وہʼسوشل میڈیاʼ پلیٹ فارم کو کافی موثر طریقے سے استعمال کررہے تھے اس کے بعد سے یہ قواعدوضوابط کچھ مہینوں سے زیر غور تھے۔
کالعدم قرار دیئے جانے والے گروپس اور کچھ دیگر گروپس کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی کچھ تشویش پائی جاتی تھی۔حال ہی میں غیر ملکی میڈیا کے لئے کام کرنے والے کچھ صحافیوں کو ایک مخصوص گروہ کی سرگرمیوں کی کوریج کے لئے ʼمتنبہʼ کیا گیا تھا اور کچھ لوگوں کو ʼدفاترʼ میں بھی بلایا گیا تھا اور انہیں اس کے بارے میں بھی بتایا گیا تھا۔
جس طرح سے ʼسوشل میڈیاʼ کے قواعد و ضوابط کو پارلیمنٹ کو اعتماد میں لئے بغیر ہی بنایا گیا تھا، ان اصولوں کےʼمصنفʼ کے بارے میں بہت سارے سوالات اٹھتےہیں،جن پرعمل درآمدʼ غیر سرکاری پابندی ʼاور سخت رکاوٹ‘ کا باعث بن سکتا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا کارکنان کیخلاف کارروائی کی جاسکتی ہے۔
و زیراعظم عمران خان جنھوں نے حال ہی میں لوگوں کو مشورہ دیا تھا کہ وہ اخبارات نہ پڑھیں یا پرائم ٹائم ʼٹی وی ٹاک شوزʼنہ دیکھیں،ʼجمعہ کے روز مختلف ٹی وی چینلز اور اخبارات کے نامہ نگاروں اور بیورو چیفس سے ملاقات کی اور پریس کیخلاف اپنی شکایت درج کرائی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ دو سالوں سے انھیں کسی اور سے زیادہ ʼمیڈیاحملوںʼ کا سامنا کرنا پڑاہےاوریہاں تک کہ جسے وہ اپنےاورحکومت کےخلاف"جھوٹی کہانیاں شائع کرنا"کہتےہیں، اس پرپاکستان کے سب سےبڑےمیڈیا ہاؤسزجنگ اور ڈان کا نام بھی لیا۔ اپنی دلیل کی تائید کےلئے انہوں نے اپنے نئے مقرر کردہ میڈیا معاون شہباز گل سے بھی میڈیا کو مبینہ طور پر ʼبے بنیاد کہانیوںʼ کے بارے میں بتانےکو کہا اور انھوں نےکہا کہ ایسی 20خبریں ہیں۔
انھوں نے بتایا اگر ایسی خبریں برطانیہ میں شائع ہوتی تو ایسے اخبار بندکردیئےجاتے۔ وزیراعظم نے خاص طورپر اپنے چین دورے کے بارے میں جعلی خبر کا حوالہ دیا، جس کے بارے میں انھوں نے کہاکہ اس سے انھیں کافی بے عزتی کاسامنا کرناپڑا۔
انھوں نے یہاں تک کہاکہ جس چینل نے جعلی خبر چلائی اس کے خلاف انھوں نےپیمراسےکوئی ریلیف نہیں لیا۔ وزیراعظم نے برطانیہ کی مثال دی جہاں میڈیا کو مضبوط ہتک عزت کے کیس کاسامناکرناپڑسکتاتھا، یہاں تک ان میں سے کچھ کو بندکردیاگیاہے۔
سوال یہ ہےکہ وزیراعظم کو کس نے روکاہے کہ کہ وہ مضبوط ’ڈی فیمیشن لاز‘نہ بنائیں، جہاں فیصلہ سالوں میں نہیں بلکہ مہینوں میں آناچاہیئے۔ یہ قانون سب کیلئے ہوناچاہیئےکہ کوئی بھی کسی کے خلاف بے بنیاد الزامات عائد نہ کرسکے اور یہ صرف میڈیاتک محدود نہیں ہوناچاہیئے۔ کس نے وزیراعظم اور حکومت کو میڈیا کمیشن کی سفارشات کو نافذ کرنے سے روکا ہےجو سپریم کورٹ نے 2012میں تشکیل دیاتھا اور اس کی رپورٹ وزیراعظم کے آفس اور وزارتِ اطلاعات کے پاس پڑی ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے قبل یہ وعدہ کیاتھا وہ وزارتِ اطلاعات ختم کردیں گے اور پی ٹی وی اور ریڈیوپاکستان کوبی بی سی کی طرزپر ایک خودمختار باڈی بنائیں گےاور فریڈم آف پریس کا دفاع بھی کیا تھا۔
ایک بار انھوں نے ان کوسپورٹ کرنے پر میڈیا کو کریڈٹ بھی دیاتھا۔ ’’ میں اس مقام پر کبھی نہ ہوتا جس پرآج ہوں اگر آپ لوگ میرےساتھ نہ ہوتے۔‘‘ ایسا انھوں نے ایک جلسےمیں کہاتھااورکئی مواقع پریہ دہرایاتھا۔
ماضی میں بھی رہنماپریس کی آزادی اور آزادیِ اظہارِرائےکےتحفظ کےوعدےکرچکےہیں۔ 70کی دہائی میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے بھی پریس کی آزادی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کوختم کرنے کا وعدہ کیاتھا لیکن دونوں کواستعمال کیا۔
انہوں نے بھی آزاد پریس کو برداشت نہیں کیا۔جہاں تک سینسر شپ اور میڈیاپرپابندیوں کی بات ہے توجنرل ضیاء کادور بدترین دور تھاجب صحافیوں کو کوڑے بھی مارے گئے۔
محمد خان جونیجو اور بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے نتیجے میں کچھ بہتری آئی تھی اور پریس نے آزادانہ طور پر ان کی حکومتوں پرتنقید کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی دوسری حکومت کے دوران ’سزاو جزا‘دونوں ہی کی پالیسی استعمال کی۔
انہوں نے پریس کےخلاف اپنے احتساب بیورو کےسربراہ سیف الرحمن کواستعمال کیا۔ بےنظیر نے اپنی دوسری حکومت کےدوران کراچے سے شائع ہونے والےشام کےچھ اخبارات پرکچھ دن کیلئےپابندی عائدکی تھی۔ جنرل پرویز مشرف دور میڈیا کو آزادی دینے اورپابندیوں کامرکب تھا۔
انہوں نےخود ایک بار کہا تھا کہ وہ اپنی ہی تخلیق کاشکارہوجاتےہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہےکہ نجی ٹی وی چینلز کو لائسنس کی اجازت دینے کی ابتدائی پالیسی کے بعد ان کی سرکاری ایجنسیوں نےپریس کو قابوکرنےکےلئےحربے استعمال کیے۔
تاہم جب سے عمران خان اقتدارمیں آئےوہ میڈیاکےسخت ناقدرہے اوریہ ان کے غم و غصے کی وجہ تھی،ان کی حکومت نے بڑے پیمانے پر اشتہارات ختم کیے،جس سے سنجیدہ مالی بحران پیدا ہوا، اس کے بعد میڈیاکوکنٹرول کرنےکےلئےکئی قوانین بنائےگئے۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔