17 مئی ، 2020
ہمارے نہایت معتدل اور شیریں بیاں وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی یونہی پارلیمنٹ میں نہیں دھاڑے کہ اُن کی موجودہ جماعت پی ٹی آئی سندھ میں بھی اپنا لوہا منوانے جا رہی ہے۔
ابھی تو انتخابات بہت دُور ہیں۔ پھر وہ کونسا لوہا ہے جو وہ منوانے جا رہے ہیں؟ مبینہ ’’سندھ کارڈ‘‘ کے خلاف وہ کون سے ’’پاکستان کارڈ‘‘ کو آزمانے جا رہے ہیں۔ اس کا جواب پہلے ہی 12مئی کو صدرِ مملکت کی جانب سے دسویں این ایف سی ایوارڈ کے اعلان میں چھپا ہوا ہے، جس کے قیام کے ساتھ وہ پانچ وفاقی مالیاتی امور ہیں جن سے ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں وفاق اور صوبوں میں قابلِ تقسیم محصولات (Divisible Pool) کی طے کردہ شرح یکسر بدل جائے گی۔
نئی شرائط (TOR) میں (1) سلامتی، (2) پبلک سیکٹرز کارپوریشنز، (3) امدادی رقوم (Subsidies)، (4) قرضوں کی ادائیگی، (5) آزاد جموں و کشمیر، گلگت بلتستان اور سابقہ فاٹا شامل کر دیے گئے ہیں۔ اس کے باوجود کہ آئین کی شق (3A) 160کے تحت صوبوں کے مالیاتی حصہ کی شرح گزشتہ این ایف سی ایوارڈ (ساتواں ایوارڈ) سے کم نہیں کی جا سکتی جو صوبوں کے لیے 57.5فیصد اور مرکز کے لیے 42.5فیصد ہے، جانے صوبے خاص طور پر سندھ اور بلوچستان اس پہ کیسے متفق ہوں گے؟
لگتا ہے باقی تو سب مفتوحہ اکائیاں ہیں، اسی لیے تو وزیرِ خارجہ سندھ میں لوہا منوانے کا اشارہ دے رہے ہیں۔ وائسرائی مرکز اور محکوم صوبوں کے مابین یہ جنگ پھر سے تب شروع ہوئی جب 2008ء کے انتخابات کے بعد جمہوریت بحال ہوئی اور چارٹر آف ڈیمو کریسی کی پارٹیاں برسرِاقتدار آئیں۔
صدر زرداری کی پہل قدمی سے اور تمام جماعتوں کی بردباری سے جنرل ضیا کی آٹھویں اور جنرل مشرف کی سترہویں آمرانہ ترمیموں کو اٹھارہویں ترمیم سے صاف کرتے ہوئے بہت ساری فالٹ لائنز کو حل کر دیا گیا اور خاص طور پر وفاق اور صوبوں میں جاری ملک شکن کشمکش کا حل تلاش کرتے ہوئے ایک جمہوری وفاق کی طرف قدم بڑھایا گیا۔
کل جماعتی پارلیمانی کمیٹی نے جناب رضا ربانی کی قیادت میں پندرہ جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے 77طویل نشستوں میں لمبے غور و خوض کے بعد آئین کی 97شقوں میں ترامیم کیں۔ نتیجتاً کنکرنٹ لسٹ چوتھے شیڈول سے نکال دی گئی اور 18وفاقی وزارتوں اور ڈویژنز کے فرائض صوبوں کو منتقل ہوئے اور اُن کی مالی ذمہ داریاں بھی۔
یہ علیحدہ بات ہے کہ ان میں سے بہت سے ڈویژن اور وزارتیں مرکزی بیورو کریسی حیلے بہانوں سے ابھی بھی مرکز کے پاس رکھنے پہ مصر ہے۔ بھلا اولڈ ایج بینیفٹ انسٹیٹیوشن، ورکرز ویلفیئر فنڈ اور زکوٰۃ فنڈ کےمرکز کے پاس رہنے کا کیا جواز ہے؟
میرے دوست رضا ربانی اور اُن کے جمہوری رفقا بہت سادہ لوح تھے کہ جدید نو آبادیاتی وائسرائی نوکر شاہی ڈھانچے کے مرکزی شکنجے کو برقرار رکھتے ہوئے ایک رضاکار وفاق تو دُور کی بات ہے ایک جمہوری وفاق بھی نہیں چل سکتا۔ اُلٹا جمہوریت کو جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔
وفاق کے مرکزی نوکر شاہانہ ڈھانچوں کے باعث اسلام آباد جو چاہے فیصلے کرے، صوبوں کے چیف سیکرٹری ہوں یا انسپکٹر جنرل پولیس اور پیرا ملٹری فورمز سب مرکز کے نمائندے ہیں۔ پھر ریاستی شعبے میں ریلوے، پی آئی اے، واپڈا، تیل و گیس کی کارپوریشنز، بندرگاہیں، اسٹیٹ بینک، انشورنس کمپنیاں اور بینک، این ایل سی، فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن، کمیونیکیشن، ایف بی آر اور دوسرے چار پانچ درجن ادارے ہیں جن پر صوبوں کو کوئی اختیار نہیں۔
حالانکہ ان سمیت 22کے قریب ایسے امور ہیں جنہیں مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کےسامنے لانا آئینی تقاضا ہے۔ سی سی آئی کی طرح نیشنل اکنامک کونسل (NEC) بھی ایک وفاقی ادارہ ہے جو معاشی پالیسیوں، منصوبہ بندی، بین الصوبائی معاشی امور و دیگر پالیسی معاملات پہ موثر کردار ادا کرتا تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سی سی آئی اور این ای سی عضوِ معطل بنا دیے گئے ہیں اور اُن کی جگہ نت نئے ایڈہاک ادارے سامنے آ رہے ہیں جیسا کہ ہم کورونا کے حوالے سے دیکھ رہے ہیں جو سی سی آئی کا کام تھا۔
مرکز صوبوں کو آئینی وفاقی اداروں کے ذریعہ شراکت دار بنا کر ذمہ داریوں میں حصہ دار بنانے کے بجائے اختیارات تو اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے لیکن اپنی مالی خرابیوں کا بوجھ صوبوں پہ ڈالنا چاہتا ہے۔
اٹھارہویں ترمیم کے بعد وفاقی ریاستی ڈھانچوں میں بڑی کمی واقع ہو جانی چاہیے تھی جو نہیں ہوئی اور ٹیکس کی قومی آمدنی سے شرح 9فیصد سے بڑھا کر 15فیصد کی جانی تھی جو اب بھی اُسی مقام پہ ہے۔
اپنے خرچے کم کرنے، فالتو بوجھ اُتارنے اور آمدنی بڑھانے کے بجائے اب بھاری بھر کم مرکز اور اس کا نوکر شاہانہ لائو لشکر غیر ضروری صرفوں اور غیر پیداواری خرچوں کے باعث دیوالیہ ہونے کو ہے اور اس کے ازالے کے لیے اسلام آباد اپنی غیر ذمہ داریوں کا مالی بوجھ صوبوں کو منتقل کرنے کے لیے ان پہ دبائو ڈال رہا ہے۔
اب 18ویں ترمیم سے تو خلاصی ہونے سے رہی، اس لیے نگاہِ کرم صوبوں کے مالیات پہ ہے جو عوام کو سماجی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ نواں این ایف سی ایوارڈ اس لیے ناکام ہوا تھا کہ TORمیں شامل نہ کیے جانے کے باوجود سلامتی کے لیے 3فیصد اور وفاق کے زیرِ انتظام علاقوں کے لیے 4فیصد کی کٹوتی پہ اصرار کیا گیا تھا۔
اگر سلامتی اور وفاق کے زیرِ انتظام و سابق فاٹا کے علاقوں کے علاوہ قرض کی ادائیگی، کارپوریشنز کے نقصانات اور امدادی رقوم کو بھی مجموعی فنڈز سے منہا کر لیا گیا تو صوبوں کے حصہ میں صرف 7فیصد نہیں بلکہ 15فیصد سے زائد کمی ہو جائے گی جو غیر آئینی ہی نہیں بلکہ بڑے مسائل اور کشمکشوں کا باعث بنے گی۔
اس پہ ایک حد تک باقی صوبے ممکن ہیں مان جائیں، سندھ ماننے والا نہیں، بلوچستان بھی خوش ہونے سے رہا۔ تو پھر سندھ میں کچھ رگڑا یا دھڑن تختہ کیے بغیر بات بننے والی نہیں۔ لیکن ہماری وائسرائی روایت والی قوتیں شاید یہ بھول رہی ہیں کہ اگر صوبوں نے یہ کہا کہ جن شعبوں کے لیے آپ صوبوں سے مالی ذرائع مانگ رہے ہیں تو پھر ان شعبوں، وزارتوں اور اداروں کو بھی مشترکہ مفادات کونسل کے دائرۂ عمل میں لائیں تاکہ وہ بھی فیصلہ سازی میں حصہ دار بنیں۔
پاکستان کی معاشی ترقی تو تنزل پذیر تھی ہی اور اس کی نوکر شاہی نو آبادیاتی روایات کی امین، لگتا ہے اب سیاسی ارتقا پھر سے اپنے اصل آمرانہ ماضی کی طرف پلٹ رہا ہے۔ اب بیچاری جمہوریہ کے پلے رہا ہی کیا ہے جو وفاقیت بچ پائے گی۔ اوپر سے کورونا ہے اور اس کی لائی ہوئی موت اور معاشی تباہ کاری۔ یہ سب مل کر کیا رنگ جمائیں گے۔ اللہ معافی!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔