28 مئی ، 2020
ایک تخمینے کے مطابق صرف ایک کلو چینی تیاری میں تقریباً 4500 لیٹر پانی خرچ ہوتا ہے لیکن پانی کے شدید بحران کے خطرے سے دوچار پاکستان میں عام فصلوں کے مقابلے کئی گنا زائد پانی استعمال والی گنے کی فصل ترجیح حاصل کر چکی ہے۔
زرعی ممالک عموماً پانچ ، دس اور 20 سالہ زرعی منصوبہ بندی کے ساتھ چلتے ہیں جب کہ پاکستان میں 70 کی دہائی کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا جس کی وجہ سے کبھی سیلاب میں قیمتی پانی ضائع ہوتا ہے تو کبھی خشک سالی میں بوند بوند کو ترسایا جاتا ہے۔
2025 میں ملک کے شدید ترین پانی کمی کے خطوں میں شمار کی وارننگز کے باوجود پاکستان میں کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور اب بھی کئی گنا زائد پانی استعمال اور متبادل فصلوں کے مقابلے زائد وقت یعنی اوسطاً 14 ماہ لینے والی گنے کی فصل کو غیر اعلانیہ فوقیت حاصل ہے۔
پاکستان میں کپاس کی فصل مختلف وجوہات اور عدم توجہ کے سبب اتنی متاثر ہوئی ہے کہ روان سال پاکستان کا ٹیکسٹائل سیکٹر اربوں ڈالرز کی کپاس درآمدکرے گا۔
ایک تحقیق کے مطابق ایک ٹن گنے میں 4 ہزار کیوبک میٹر پانی لگتا ہے اور اگر 12 کلو گنے سے ایک کلو چینی کا حساب لیں تو تقریباً 4500 لیٹرز پانی سے ایک کلو چینی تیار ہوتی ہے۔
وزارت آبپاشی، واپڈا اور دیگر خرچوں کے ساتھ اگر پانی کا کم ترین خرچ یعنی صرف آدھا پیسہ فی لیٹر سے حساب لیں تو ایک کلو چینی پر پانی کا خرچ 22.5 روپے بنتا ہے۔
اس دوران کئی ارب روپے سبسڈی کے ساتھ عوام سے مذاق یہ کہ پاکستان میں چینی کی قیمت عالمی منڈی میں چینی کی قیمت 62 روپے کلو سے کہیں زائد ہے۔
دوگنا پانی استعمال کرنے کے باوجود پاکستان کی فی ہیکٹر پیداوار صرف 52 ٹن جب کہ دیگر ملکوں کی اس سے کہیں زائد ہے۔
پاکستان میں شوگر مافیا کی لاڈلی فصل خوب پھل پھول رہی ہے جب کہ ناسا سیٹلائیٹ ایمیج سے ظاہر ہے کہ دریائے سندھ کے ساتھ بہت زیادہ زیر زمین پانی نکلنے سے زیر زمین پانی کی قلت والے خطے میں پاکستان شامل ہوچکا ہے۔
کپاس پیداوار سے اربوں ڈالرز ایکسپورٹ میں مدد اور پانی بچت، سورج مکھی سے اربوں ڈالرز امپورٹ بل کم ہونے کی امید کے باوجود گنے کی کاشت اب بھی ترجیح ہے۔