18 جون ، 2020
گزشتہ دنوں چند ایسی خبریں پڑھنے کو ملیں جو بہت حوصلہ افزا ہیں، اس لیے سوچا کیوں نا انہیں اپنے قارئین سے شیئر کیا جائے۔ حکومتوں سے، پارلیمنٹ سے اور سیاسی جماعتوں سے بہت شکایات رہتی ہیں کہ پاکستان کے قیام کو 73سال ہو گئے لیکن ابھی تک قیامِ پاکستان کے اسلامی نظریہ کی تکمیل نہیں ہو سکی۔
ہم نے جس ملک کو ایک اسلامی فلاحی ریاست بنانا تھا وہ دہائیاں بیت جانے کے بعد بھی اپنے مقصد سے بہت دور ہے۔ آئین میں جو لکھا ہے اُس پر عمل درآمد نہیں ہوتا، خصوصاً آئین کی اسلامی شقوں کو تو جیسے بھلا دیا گیا ہو۔
ان حالات میں اگر کہیں سے خبر ملے کہ کسی حکومت، کسی اسمبلی یا کسی ریاستی ذمہ دار نے وہ کام کیا جو بہت پہلے ہو جانا چاہیے تھا تو اُس سے دل خوش ہوتا ہے اور جی چاہتا ہے کہ ایسا کرنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی جائے۔
ایک خبر کے مطابق پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں میں قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھانے کو لازمی قرار دینے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت کے فیصلہ کے مطابق پنجاب کی جامعات میں قرآن مجید کو ترجمہ کے ساتھ پڑھے بغیر ڈگری نہیں ملے گی۔
اس فیصلہ کے پیچھے گورنر پنجاب چوہدری سرور کا اہم کردار ہے جنہوں نے صوبے بھر کی جامعات کے وائس چانسلرز سے مشاورت کے بعد قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ یونیورسٹیز میں پڑھانے کا اعلان کیا۔ اب پنجاب کی تمام جامعات میں لیکچررز طلبہ کو ترجمہ کیساتھ قرآن پڑھائیں گے اور طلبہ کے لیے ان لیکچرز میں شرکت کرنا اتنا ہی لازمی ہوگا جتنا دیگر لیکچرز میں۔
یونیورسٹیوں میں قرآن مجید کا نصاب اسلامیات کے مضمون کے علاوہ پڑھایا جائے گا۔ اس فیصلہ کا اعلان کرتے ہوئے گورنر پنجاب نے درست کہا کہ قرآن مجید ہمارے لیے اصل رہنمائی کا ذریعہ ہے جس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ہی ہماری دنیا اور آخرت سنور سکتی ہے۔
پنجاب سے ہی ایک اور اچھی خبر پڑھنے کو ملی جس کا سہرا اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کے سر جاتا ہے۔ خبر کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ایک حالیہ اجلاس میں پیغمبر آخر الزماں حضرت محمدﷺ، امہات المومنینؓ اور صحابہ کرامؓ کی شان میں گستاخی کو روکنے کے لیے اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی کی کوششوں سے ایک بل منظور کیا گیا ہے جس کے تحت ٹیکسٹ بک بورڈ کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ اسلامی کتب کی اشاعت سے قبل متحدہ علماء بورڈ سے منظوری لے گا۔
اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی نے بل کی منظوری پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جو دین اللہ کے آخری نبی حضرت محمدﷺ لے کر آئے ہیں، آئے روز اس کے خلاف سازشیں ہوتی ہیں، بالخصوص اسکولوں میں ہمارے بچوں اور بچیوں کو جو کتابیں پڑھائی جاتی ہیں، ان سے ان کے ذہن میں دین اسلام، خلفائے راشدین، اہل بیت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے متعلق شکوک و شہبات پیدا کیے جاتے ہیں، اب وقت آ گیا ہے کہ اس شر کے دروازہ کو ہمیشہ کیلئے بند کر دیں تاکہ ہماری آئندہ نسل ایسی سازشوں سے محفوظ رہے۔
تیسری خبر کا تعلق سندھ سے ہے جس کے مطابق سندھ اسمبلی نے گزشتہ پیر کو اپنے اجلاس میں ایک تاریخی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی جس میں نبی آخر الزماں حضرت محمدﷺ کے نام کے ساتھ لازمی طور پر خاتم النبیین لکھنے کی سفارش کی گئی ہے۔
یہ قرارداد ایم کیو ایم کے رکن صوبائی اسمبلی محمد حسین کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔ محرک کا کہنا تھا کہ اللہ رب العزت نے نبوت کے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے ہیں، اس لیے لازم قرار دیا جائے کہ حضرت محمدﷺ کا نام جب اور جہاں کہیں لکھا جائے، اُس کے ساتھ خاتم النبیین ضرور تحریر کیا جائے۔ اس موقع پر قائد حزبِ اختلاف فردوس شمیم نقوی نے صوبائی حکومت پر زور دیا کہ اس قراداد کی روشنی میں قانون بنایا جائے۔
یہ تینوں اقدامات نہایت قابلِ تحسین ہیں اور ان اقدامات کے پیچھے محرک افراد قابلِ تعریف۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے فیصلوں کا نفاذ کسی ایک صوبہ یا کسی ایک جگہ تک محدود نہیں رہنا چاہیے جس کے لیے میری وفاق، تمام صوبائی حکومتوں، گلگت بلتستان اور کشمیر کے حکمرانوں اور ذمہ داروں سے گزارش ہے کہ وہ اس بارے میں اپنی دینی اور آئینی ذمہ داری پوری کریں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔