26 جون ، 2020
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان نیب کے قانون میں تبدیلیوں کے حوالے سے عدم اتفاق کی وجہ سے بیوروکریسی اور کاروباری افراد پریشان ہیں اور اس سے طرز حکمرانی اور معیشت کو نقصان ہو رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کو لگتا ہے کہ نیب قانون میں کچھ تبدیلیوں کے بغیر بیوروکریسی اور کاروباری کمیونٹی کے خدشات دور نہیں کیے جا سکتے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں یہ معاملہ بنی گالہ میں ہونے والے اجلاس میں اٹھایا گیا تھا۔ قانون میں اصلاحات کے معاملے پر وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان تھے جنہوں نے وزیراعظم کے ساتھ بیوروکریسی اور کاروباری افراد کے نیب قانون میں ترمیم کے حوالے سے خدشات پر بات کی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم کو بھی احساس ہے کہ نیب کی ہراسگی سے بچائو کے بغیر بیوروکریسی کام کر پائے گی اور نہ ہی کاروباری افراد سرمایہ لگا پائیں گے۔ لیکن وزیراعظم اور ان کی پارٹی نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی خواہش کے مطابق نیب کو بے اختیار ادارہ نہیں بنانا چاہتی۔
پی ٹی آئی کی حکومت نے کچھ ماہ قبل فیصلہ کیا تھا کہ نیب قانون میں ترمیم کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول اپوزیشن جماعتوں سے مذاکرات کیے جائیں اور ترمیم آرڈیننس کے ذریعے یا پھر ممکن ہو تو پارلیمنٹ کا سیشن بلا کر کی جائے۔
وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر وزارت قانون نے آرڈیننس کے نئے مسودے پر کام کیا تاکہ قانون میں کم از کم وہ تبدیلیاں (ترمیم کے ساتھ )لائی جائیں جو کچھ ماہ قبل یعنی گزشتہ سال کے ماہِ دسمبر میں آرڈیننس کی مدت مکمل ہونے پر ختم ہو گئی تھیں۔
حکومت کی ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی گئی تھی جس میں اسد عمر، فروغ نسیم، بابر اعوان، پرویز خٹک اور شہزاد اکبر شامل تھے جبکہ قومی اسمبلی سے اسد قیصر کو بھی قانون میں 15؍ روز میں ترمیم کیلئے اس معاملے میں شامل کیا گیا۔
کمیٹی کو نہ صرف حکومتی اتحادیوں سے بلکہ اپوزیشن جماعتوں سے بھی رابطے کا کام سونپا گیا تا کہ ترامیم کی نوعیت کے لحاظ سے اتفاق رائے حاصل کیا جا سکے۔ تاہم، وزارت قانون کی جانب سے مسودہ کو حتمی شکل دیے جانے سے قبل ہی سوشل میڈیا پر نیب قانون میں ترامیم کے حوالے سے ایک دستاویز لیک ہوگئی جسے ’’حتمی مسودہ‘‘ بتایا جا رہا تھا۔
عمومی طور پر اسے سرکاری مسودہ بتایا گیا۔ تاہم، حکومت نے خبر کو جعلی قرار دیا جس میں یہ حتمی مسودہ شامل تھا۔ ایک طرف مسودے کی وجہ سے حکومت پر پارٹی کے اندر سے ہی دبائو آنے لگا کیونکہ اتنی بڑی تبدیلیوں کے نتیجے میں نیب بے اختیار ادارہ بن جاتا، جو کئی لوگوں کی نظر میں پی ٹی آئی کے احتساب کے دعووں کے برعکس اقدام ہوتا، تو دوسری طرف جعلی مسودے کی وجہ سے اپوزیشن والوں کیلئے بڑی امیدیں پیدا ہوگئیں کیونکہ وہ اتنا کچھ مانگ رہے ہیں جتنا حکومت شاید ہی دے سکے۔
حکومت چاہتی تھی کہ قومی احتساب (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2019ء کی معیاد مکمل ہونے کے چند ہفتوں بعد ہی اس قانون میں صدارتی آرڈیننس کے ذریعے یا پھر اپوزیشن جماعتوں کو ساتھ ملا پارلیمنٹ کا سیشن بلا کر ترمیم کی جائے۔
یہ آرڈیننس دسمبر کے آخر میں نافذ کیا گیا تھا اور اس کی آئینی عمر 120؍ دن تھی۔ ختم ہونے والے آرڈیننس میں قابل تعریف تبدیلیاں موجود تھیں جو پی ٹی آئی حکومت نے متعارف کرائی تھیں تاکہ سرکاری عہدیداروں بالخصوص سویلین بیوروکریسی اور کاروباری کمیونٹی کو بیورو کی ہراسگی سے بچایا جا سکے۔
نیب کے دوسرے ترمیمی آرڈیننس کا بنیادی مقصد بیوروکریٹس کا اعتماد بحال کرنا اور فائلوں پر بیٹھے رہنے کی بجائے فیصلے کرنے کیلئے ان کی حوصلہ افزائی کرنا تھا۔
سرکاری ملازمین اور سرکاری عہدیداروں (سیاست دانوں) کو نیک نیتی کے ساتھ قانونی تحفظ فراہم کیا گیا تا کہ اگر انہوں نے اپنے کسی فیصلے سے کوئی مالی فائدہ نہیں اٹھایا اور اپنے اثاثوں میں معلوم ذرائع سے ہٹ کر نامناسب انداز سے اضافہ نہیں کیا تو وہ اپنے فرائض انجام دے سکیں اور کارکردگی دکھا سکیں۔
یہ ترامیم صدارتی آرڈیننس کے ذریعے متعارف کرائی گئی تھیں کیونکہ حکومت کو اندازہ ہو چکا تھا کہ کاروباری طبقہ کام کرے گا اور نہ ہی بیوروکریسی خدمات انجام دے سکے گی تاوقتیکہ نیب کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کو اس کی طاقت کم کرکے روکا نہ جائے۔
اب یہ آرڈیننس ختم ہو چکا ہے، حکومت اس معاملے کو پارلیمنٹ میں لانا چاہتی تھی لیکن کورونا وائرس کی وبا کے باعث پارلیمنٹ کا اجلاس طلب نہ کیا جا سکا۔
دسمبر 2019ء میں جاری کر دہ آرڈیننس کی معیاد مکمل ہونے کے بعد ایک مرتبہ پھر کاروباری افراد اور بیوروکریسی کو خطرات کا سامنا ہے کیونکہ نیب کو ایک مرتبہ پھر وہی اختیارات حاصل ہو گئے ہیں جن کا غلط استعمال کیا جاتا رہا ہے اور جن کی وجہ سے ایسی صورتحال پیدا ہوگئی تھی۔
جس کی وجہ سے سرکاری ملازمین اور ساتھ ساتھ کاروباری افراد نے حکومت نے واضع طور پر بتا دیا تھا کہ وہ ایسے ماحول میں کام نہیں کر سکتے جہاں انہیں ہراسگی اور بلیک میلنگ کا سامنا ہو۔
نہ صرف کاروباری افراد بلکہ بیوروکریٹس نے بھی وزیراعظم کو نیب کی جانب سے اختیارات کے غلط استعمال کی شکایت کی تھی اور ساتھ ہی آرمی چیف سے مل کر بھی ان کی مدد طلب کی تھی تاکہ ہراسگی کا سلسلہ بند ہو سکے۔