03 جولائی ، 2020
دہشت گردی کی کسی بھی واردات کے بعد ملزمان یا ان کے سہولت کاروں تک پہنچنے میں ایک اہم ذریعہ ان کے زیر استعمال گاڑی ہوتی ہے لیکن پاکستان اسٹاک ایکسچینج پر حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی اوپن لیٹر پر تھی جو کہ ایک جرم ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق کراچی کی سڑکوں پر لاکھوں گاڑیاں اوپن لیٹر پر چل رہی۔
پاکستان اسٹاک ایکسچیج پر دہشت گرد حملے میں استعمال ہونے والی گاڑی نجی بینک کے نام پر رجسٹرڈ ہونے نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھادیا کہ کیا کراچی کی سڑکوں پر "اوپن لیٹر" پر چلنے والی گاڑیوں کا کوئی ریکارڈ ہے؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔
محکمہ ایکسائز کے حکام کے مطابق نہ تو ان کے پاس ایسی گاڑیوں کی خریدوفروخت کا ریکارڈ ہے اور نہ ہی ان کی روک تھام کا کوئی اختیار، تو پھر کراچی میں یومیہ بکنے والی گاڑیوں کی خریدوفروخت کیسے ہوتی ہے؟
ٹریفک پولیس نے گزشتہ سال اوپن لیٹر پر گاڑیوں کے بارہ ہزار سے زائد چالان کیے اور 62 لاکھ 34 ہزار روپے کے جرمانے عائد کیے، ہدایات بھی جاری کیں کہ شہری گاڑی خریدنے کے ایک ماہ کے اندر اسے اپنے نام پر ٹرانسفر کرائیں۔
محکمہ ایکسائز کے مطابق رواں سال اب تک 16 ہزار سے زائد نجی گاڑیاں رجسٹرڈ کروائی گئیں جب کہ سال 2019 میں رجسٹرڈ کرائی گئیں نجی گاڑیوں کی تعداد 57 ہزار سے زائد تھی۔
1960 سے اب تک 14 لاکھ 78 ہزار سے زائد پرائیوٹ گاڑیاں رجسٹرڈ کروائی گئیں، تاہم نام پر کروائی یہ گاڑیاں کب کون کس کو بیچ دے، اس بات کا ادراک حکومتی اداروں کو نہیں ہے۔