بلاگ
Time 06 اگست ، 2020

شہیدوں کے مزار

فوٹو فائل—

عمران خان کی حکومت نے اسلام آباد سے مظفر آباد جانے والی سڑک کا نام کشمیر ہائی وے سے بدل کر سری نگر ہائی وے رکھ دیا، مقبوضہ جموں و کشمیر کو پاکستان کے نقشے میں شامل کرکے نیا نقشہ اقوامِ متحدہ میں پیش کرنے کا اعلان کر دیا اور 5اگست کو یومِ استحصالِ کشمیر بھی منایا لیکن اس کے باوجود اس حکومت کی کشمیر پالیسی کے بارے میں عوام الناس میں بےچینی اور عدم اطمینان چھپائے نہیں چھپتا۔

حکومت میں بھی کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کو یہ احساس ضرور ہے کہ 5اگست 2019کو بھارت کی طرف سے کرفیو اور لاک ڈائون کے ذریعہ مقبوضہ جموں و کشمیر پر باقاعدہ قبضہ فی الحال تو پاکستان کے حکمرانوں کے لئے صرف ایک طعنہ ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ طعنہ پوری پاکستانی قوم کے لئے بدنامی کا ایک داغ بن جائے گا کیونکہ 1971میں ایک جنگ ہوئی جس میں شکست کے بعد پاکستان ٹوٹ گیا لیکن 2019میں بھارت نے کسی جنگ کے بغیر ہی جموں و کشمیر پر قبضہ کر لیا اور اب بھارتی رہنما ہر دوسرے دن آزاد کشمیر پر قبضے کی بھی دھمکیاں دیتے ہیں۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ پچھلے سال جب بھارت نے لائن آف کنٹرول عبور کرکے پاکستان پر ہوائی حملہ کیا تو پاکستان ایئر فورس نے اُس کا طیارہ مار گرایا اور بڑی بڑی مونچھوں والے پائلٹ ابھی نندن کو گرفتار کرکے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان کے خلاف کسی بھی جارحیت کا بہت بھرپور جواب دیا جائے گا لیکن ابھی نندن کو واپس بھارت بھجوانے کے بعد کچھ ایسے واقعات پیش آئے جن سے یہ تاثر ملا کہ پاکستان نے تو بھارت کو خوش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن بھارت نے پاکستان کی امن پسندی کو کمزوری سمجھ کر ایسا رویہ اختیار کیا جو کوئی حاکم کسی محکوم کے ساتھ اختیار کرتا ہے۔

بھارتی پائلٹ کو بڑی عزت و احترام کے ساتھ چائے پلا کر واہگہ کے پار بھجوانے کے چند ماہ کے بعد نریندر مودی کی حکومت نے 5؍اگست 2019کو بھارتی آئین کی دفعہ 370اور 35اے ختم کرکے جموں و کشمیر پر باقاعدہ قبضہ کر لیا۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں دو مطالبات بڑی شدت کے ساتھ سامنے آئے۔ پہلا یہ کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے لئے اپنی فضائی حدود کو بند کر دیا جائے۔ دوسرا یہ کہ پاکستان شملہ معاہدے کے خاتمے کا اعلان کرے لیکن پاکستان کی طرف سے مودی کو نازی ہٹلر کا دوسرا روپ قرار دینے کے علاوہ کوئی عملی قدم نہ اٹھایا گیا۔

9؍نومبر 2019کو یومِ اقبال کے دن کرتار پور راہداری کھولی گئی جس کا بھارت کی سکھ برادری نے خیر مقدم کیا لیکن نریندر مودی کی حکومت نے اس کا خیر مقدم نہیں کیا۔ دوسری طرف امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بار بار مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کرتے رہے لیکن اُس کی اس پیشکش کو بھارتی حکمرانوں نے مذاق میں اُڑا دیا جس سے یہ تاثر اُبھرا کہ ٹرمپ اور مودی مل جل کر پاکستانیوں کو بےوقوف بنا رہے ہیں۔

ستم بالائے ستم یہ کہ 13؍جولائی 2020کو یومِ شہدائے کشمیر پر پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے لئے واہگہ بارڈر کھولنے کا اعلان کر دیا۔ 4؍اگست کو جب دفتر خارجہ میں حکومت کی طرف سے مختلف سیاسی جماعتوں کی قیادت کو ایک بریفنگ دی جا رہی تھی ، عین اُسی وقت اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق کشمیر پر ایک علیحدہ مجلس مشاورت کی میزبانی کر رہے تھے جس میں آزاد کشمیر کے صدر سردار مسعود خان سمیت آل پارٹیز حریت کانفرنس کی قیادت بھی موجود تھی۔

اس مجلس میں سید علی گیلانی کے قریبی ساتھی عبداللہ گیلانی سے لے کر شمیم شال تک مختلف کشمیری رہنمائوں نے جس لب و لہجے میں گفتگو کی اُس میں شکوے سے بڑھ کر احتجاج نمایاں تھا۔ ہو سکتا ہے کہ اربابِ اختیار کو اس ناچیز کے یہ الفاظ اچھے نہ لگیں لیکن سچ یہ ہے کہ آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی سیاسی قیادت نے صرف پاکستان اور اس کے عوام کی محبت میں اپنی زبانوں کو لگام دے رکھی ہے، بند کمروں میں جب وہ کپکپاتے ہونٹوں اور چھلکتی آنکھوں کے ساتھ اپنا دل نکال کر ہتھیلی پر رکھتے ہیں تو اپنے آپ پر ماتم کے سوا کوئی دوسرا راستہ دکھائی نہیں دیتا۔ یومِ استحصالِ کشمیر پر پاکستان کے حکمرانوں نے بھارت کی بہت مذمت کی لیکن اس کے باوجود کشمیری قیادت اور پاکستانی حکمرانوں کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے اور عدم اعتماد کی یہ فضا محض ترانے ریلیز کرنے اور سڑکوں کے نام بدلنے سے ختم نہیں ہوگی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان کو ایسا کیا کرنا چاہئے کہ کشمیریوں اور پاکستانی حکمرانوں کے مابین عدم اعتماد کی فضا ختم ہو جائے؟ کشمیر پر ترانے ضرور جاری کریں، سڑکوں کے نام بھی بدلیں اور اسلام آباد کی شاہراہِ دستور پر واک بھی کریں لیکن یہ تاثر نہیں ملنا چاہئے کہ پاکستان کی کشمیر پالیسی صرف بھارت کے خلاف احتجاج تک محدود ہے۔

وقت آ گیا ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر پر اسلامی ممالک کا سربراہی اجلاس بلائے اور جارحانہ سفارتی جنگ شروع کرے۔ پاکستان کے قومی ترانے کے خالق حفیظ جالندھری نے ایک دفعہ سرینگر میں حضرت خواجہ معین الدین نقش بندیؒ کی درگاہ کے صحن میں دفن 13؍جولائی 1931کو شہید ہونے والوں کے مزار پر کہا تھا:

خون کے شعلوں سے جذبوں کے دیے جلتے رہیں

سوئے منزل حریت کے کارواں چلتے رہیں

مادرِ کشمیر کی خاطر کریں سب کچھ نثار

جا بہ جا کشمیر میں دیکھوں شہیدوں کے مزار

بھارت کی پالیسی یہ ہے کہ پورے کشمیر کو شہیدوں کا مزار بنا دیا جائے۔ پاکستان کی پالیسی صرف مزار کے مجاوروں کی طرح عرس مناتے رہنے کی نہیں ہونی چاہیے۔ وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی طرف سے بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ختم کرکے جارحانہ سفارتی پالیسی کا آغاز کیا جائے ورنہ پاکستان کی کشمیر پالیسی خود ایک مزار بن جائے گی جس پر کوئی رونے والا بھی نہ ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔