15 اگست ، 2020
بعض دیگر ممالک کا بھی کردار تھا لیکن اصلاً سعودی عرب نے میاں نوازشریف اور شہباز شریف کو جنرل پرویز مشرف کے پنجے سے نکال کرلے گئے تھے۔
چنانچہ آخری مرتبہ میاں صاحب حکمران بنے تو سعودیوں کی ان سے توقعات بہت زیادہ تھیں جبکہ پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی ، میاں نواز شریف کے ساتھ خصوصی تعلقات کی وجہ سے سعودی عرب سے زیادہ خوش نہیں تھیں۔ اس دوران سعودی عرب میں تبدیلی آئی اور کرائون پرنس محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عرب بھی نیا سعودی عرب بننے لگا۔
یمن کے ساتھ جنگ شروع ہوئی تو پاکستان کے ساتھ قربت اور میاں نواز شریف پر ذاتی احسانات کی وجہ سے سعودی مطمئن تھے کہ پاکستان مدد کے لئے اپنی فوج بھیجے گا لیکن یہاں پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی نے شور مچادیا۔
معاملہ پارلیمنٹ میں چلا گیا اور میاں نواز شریف نے فوج بھیجنے سے انکار کرکے سعودی عرب اور اس کے عرب اتحادیوں کو ناراض کردیا ۔ وہ اس قدر برہم تھے کہ یواے ای کے نائب وزیرخارجہ نے پاکستان کے خلاف بہت سخت بیان بھی داغ دیا۔
ادھر جنرل راحیل شریف سعودی عرب گئے اور یہ تاثر دیا کہ وہ تو ہر طرح کی مدد کرنے کے حق میں تھے لیکن وزیراعظم آمادہ نہیں۔
انہوں نے اپنی حد تک سعودیوں کو راضی کرلیا لیکن وہ میاں نوازشریف پر شدید برہم رہے اور پاناما کیس کے دوران ان کے خلاف مواد فراہم کرکے بدلہ بھی چکا دیا۔تاہم سعودی عمران خان سے بھی خوش نہیں تھے۔
عمران خان چونکہ سعودیوں کو میاں نواز شریف کا سرپرست سمجھتے تھے، اس لئے یمن تنازعہ اور دیگر مواقع پر ان کی پالیسی عموما سعودیوں کے حق میں نہیں رہی۔ایک وجہ یہ بھی تھی کہ ان کے قریبی لوگوں میں ایسے لوگ بھی شامل تھے جو ایران کے زیراثر سمجھے جاتے ہیں۔
چنانچہ جب عمران خان کو وزیراعظم بنایا جارہا تھا تو میاں نواز شریف سے ناراضی کے باوجود سعودی عمران خان کے بارے میں تشویش میں مبتلا تھے تاہم پاکستان کی عسکری قیادت نے پل کاکردار ادا کرکے وزیراعظم بنتے ہی عمران خان اور سعودی حکمرانوں کی دوستی کرادی اور تعلقات میں اتنی گرمجوشی آئی کہ وہ محمد بن سلمان کو ذاتی دوست قرار دینے لگے۔مالی معاونت کے علاوہ سعودی عرب نے عمران خان اورامریکہ کو قریب لانے میں بھی کردار ادا کیا ۔
آغاز گزشتہ سال پانچ اگست کو نریندرمودی کی طرف سے مقبوضہ جموں وکشمیر کی حیثیت کو تبدیل کرنے کے اقدام سے ہوا ۔ عمران خان کو توقع تھی کہ سعودی عرب پاکستان کا نہ صرف ساتھ دے گابلکہ اوآئی سی کے فورم کو بھی بھرپور طریقے سے استعمال کریگا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
دوسری طرف ترکی، ایران اور ملائیشیا نے پاکستان کے حق میں بیانات دیکر ہندوستان کو ناراض کیا۔ چنانچہ عمران خان کو ملک کے اندر بڑی سبکی کا سامنا کرنا پڑا اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کیلئے جاتے ہوئے انہوں نے ترکی کا روٹ اختیار کرنے اور طیب اردوان کے ساتھ امریکہ جانے کا فیصلہ کیا۔
اس اقدام پر سعودی دوستوں نے ناراضی کا اظہار کیا تو انہوں نے ترکی سے معذرت کرکے سعودی عرب کا روٹ اختیار کیا۔ وہاں گلے شکوے ضرور ہوئے لیکن اختتام خوش اسلوبی سے ہوا اور قربت کا تاثر دینے کیلئے وزیراعظم پاکستان کرائون پرنس کے ذاتی جہاز میں نیویارک گئے ۔
اب چونکہ وہ خارجہ پالیسی کی نزاکتوں اور عربوں کی حساسیت کو خود سمجھتے نہیں اور شاہ محمود قریشی میں اتنی ہمت نہیں کہ انہیں ان کی مرضی کے خلاف مشورہ دے سکیں اسلئے وہاں انہوں نے سعودی عرب کے تین مخالف ممالک (ایران، ترکی اور ملائیشیا) کے ساتھ نئے اتحاد کی تشکیل پر اتفاق کیا جس پر محمد بن سلمان کا برہم ہوجانا یقینی تھا لیکن انہوں نے اس پر بھی اکتفا نہیں کیا اور یہ بھی دعویٰ کرڈالا کہ وہ امریکہ اور ایران کے مابین ثالثی کرنے جارہے ہیں۔
اب ہر کوئی جانتا ہے کہ سعودی پاکستان کی جانب سے ایران کے ساتھ اس کی ثالثی کی بات کو برداشت نہیں کرسکتے تو ایران اورامریکہ کی ثالثی کی بڑھک کو کیسے ہضم کرتے۔ چنانچہ ردعمل میں جہاز کی خرابی کے نام پر ان سے جہاز واپس لے لیا گیا اور انہیں واپسی پر سعودی ائرلائن کی عام پرواز میں اس انداز میں واپس آنا پڑا۔ جدہ ائرپورٹ پر کوئی معمولی سعودی عہدیدار بھی ان کے استقبال کیلئے موجود نہیں تھا۔
اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ پاکستان واپس آتے ہی بیک ڈور چینلز سے سعودی عرب کے ساتھ معاملات درست کرلئے جاتے لیکن چونکہ عمران خان کو جہاز کی واپسی اور جدہ ائیرپورٹ پر سلوک کا غصہ تھا اسلئے انہوں نے حسب سابق ملائشیا ، ایران اور ترکی کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھایا۔
یہاں تک کہ پاکستان میں مشترکہ ٹی وی چینلزکے لئے فیزیبلٹی رپورٹس بنتی رہیں لیکن جب کوالالمپور کانفرنس کا وقت قریب آیا تو سعودی عرب کی طرف سے سفارتی چینلز سے یہ پیغام موصول ہونے لگا کہ اگر پاکستانی وزیر اعظم ملائیشیا گئے تو نہ صرف دی ہوئی رقم واپس لی جائیگی بلکہ پاکستانیوں کو واپس بھجوانے جیسے انتہائی اقدامات بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔ چنانچہ وزیراعظم نے ملائیشیا جاتے ہوئے پہلے بادل ناخواستہ سعودی عرب جانے کا فیصلہ یہ سوچ کر کیا کہ وہ محمد بن سلمان کو منالیں گے لیکن ملاقات میں محمد بن سلمان اپنے موقف پر ڈٹے رہے چنانچہ وزیراعظم نے سعودی عرب سے ہی کوالالمپور کانفرنس میں شرکت سے معذرت کا پیغام متعلقہ ممالک کو بھجوایا۔
ظاہر ہے اس کی وجہ سے ملائیشیا، ترکی اورایران نہ صرف ناراض ہوئے بلکہ کسی حد تک اسے اپنی توہین بھی سمجھا۔ عمران خان یہ سوچ کر سعودی عرب سے واپس آئے کہ شاید اب سعودی عرب عنایات کی بھی بارش کردے اور اوآئی سی کے حوالے سے بھی مدد کرے لیکن دو ماہ گزرجانے کے باوجود ایسا کچھ نہیں ہوا۔ چنانچہ مایوس ہوکر وہ ملائشیا جاپہنچے ۔
وہاں انہوں نے اعلان کیا کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کرکے انہوں نے غلطی کی اور وہ اگلے سال کانفرنس میں ضرور آئیں گے ۔ دوسری طرف اپنے خاص معاون زلفی بخاری سے اوآئی سی کے خلاف بیان بھی دلوا دیا ۔
چنانچہ سعودی دوست ایک بار پھر آگ بگولا ہوگئے اور گزشتہ ماہ یہ افسوسناک قدم اٹھالیا کہ اس مشکل وقت میں پاکستان سے ایک ارب ڈالر وقت سے پہلے مانگ لئے، جو چین سے لیکر پاکستان نے ادا کئے۔
اب جب پانچ اگست کو کشمیر کے حوالے سے وزیراعظم پر دبائو بڑھ گیا اور اپوزیشن کی طرف سے یہ طعنے ملنے لگے کہ مغربی دنیا تو کیا اوآئی سی کا فورم بھی کشمیر کیلئے استعمال نہیں ہوا تو شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے خلاف بیان داغ دیا جس سے ساری دنیا کو پتہ چل گیا کہ سعودی عرب اور پاکستان کے تعلقات کس قدر خراب ہوگئے ہیں۔
چنانچہ اب ایک بار پھر آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ سعودی عرب جارہے ہیں تاکہ سعودی عرب کے ساتھ اعتماد اوردوستی کی سابقہ فضا کو بحال کریں ۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔