13 اکتوبر ، 2020
اسلام آباد: لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم کے معاون خصوصی (ایس اے پی ایم) برائے اطلاعات و نشریات کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے لیکن اب وہ سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین بھی نہیں رہے کیونکہ سی پیک اتھارٹی کو جس آرڈیننس کے تحت قانونی تحفظ حاصل تھا وہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اگرچہ انتظامی لحاظ سے باجوہ چیئرمین سی پیک اتھارٹی ہیں لیکن قانوناً یہ ادارہ بغیر کسی قانونی مینڈیٹ کے کام کر رہا ہے۔
اتھارٹیاں پارلیمانی قانون سازی کے ذریعے قائم کی جاتی ہیں اور اتھارٹیز کے قیام کیلئے انتظامی ہدایت نامے جاری نہیں کیے جاتے۔ عاصم باجوہ نے ٹوئیٹ کیا کہ ’’میں نے وزیراعظم سے درخواست کی کہ مجھے ایس اے پی ایم برائے اطلاعات و نشریات کے اضافہ عہدے سے سبکدوش کیا جائے۔ انہوں نے کھلے دل سے میری درخواست قبول کی۔‘‘ عاصم باجوہ کو آرڈیننس کا قانونی طریقہ اختیار کرتے ہوئے چیئرمین سی پیک اتھارٹی لگایا گیا تھا تاہم اب اس آرڈیننس کی معیاد ختم ہو چکی ہے۔
اس وقت کوئی ایسا قانون موجود نہیں جو سی پیک اتھارٹی کے قیام کو تحفظ دے سکے۔ ایک سینئر سرکاری ذریعے کا کہنا تھا کہ باجوہ کو چیئرمین سی پیک لگانے کیلئے جو قانونی آلہ استعمال کیا گیا وہ اب ختم ہو چکا ہے جس کی وجہ سے ان کا تقرر جائز نہیں اور وہ کام جاری نہیں رکھ سکتے۔
حال ہی میں سی پیک اتھارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر سرکاری عہدیدار (چیئرمین نہیں) کو اس وقت شرمندہ ہونا پڑا اور پچھلی نشست پر بیٹھنا پڑا جب سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی معیاد مکمل ہونے کے بعد سی پیک پر پارلیمانی کمیٹی کے کچھ ارکان نے اجلاس اور مشاورت میں ان کی شرکت پر اعتراض کیا تھا۔
دی نیوز میں شائع ہونے والی ایک حالیہ خبر کے مطابق، فورم کے رکن اور سابق اسپیکر اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما سردار ایاز صادق کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے اس بات کی نشاندہی کی کہ اس عہدیدار کی سیشن میں موجودگی غیر قانونی ہے کیونکہ سی پیک اتھارٹی کا آرڈیننس ختم ہو چکا تھا۔
ہم نے ان سے کہا کہ اگر وہ پارلیمانی پینل کی کارروائی کا مشاہدہ کرنا چاہتے ہیں تو جا کر پچھلی نشست پر بیٹھ جائیں۔‘‘ سردار ایاز صادق کے مطابق، مذکورہ عہدیدار سے جب سوال کیا گیا کہ کیا انہیں سی پیک اتھارٹی کے تحت ماہانہ تنخواہ مل رہی ہے تو انہوں نے انکار میں جواب دیا۔
ان سے کہا گیا کہ چونکہ سی پیک آرڈیننس کی معیاد ختم ہو چکی ہے اور حکومت نے اس کی معیاد میں اضافہ کیا ہے اور نہ ہی پارلیمنٹ نے اس قانون کی منظوری دی ہے لہٰذا ان (مذکورہ عہدیدار) کی اجلاس میں موجودگی غیر قانونی ہے۔ منصوبہ یہ تھا کہ کمیٹی کے روبرو سی پیک اتھارٹی کا قانون (بل) پیش کیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ کمیٹی کے کچھ ارکان نے حکومتی ارکان سے کہا کہ وہ بل لائیں تاکہ اس پر بحث ہو سکے اور اس کاجائزہ لیا جا سکے۔ چار ماہ کی اپنی آئینی مدت مکمل کرنے کے بعد، سی پیک اتھارٹی آرڈیننس کی معیاد میں رواں سال جنوری میں 120؍ روز کیلئے توسیع کی گئی تھی۔
گزشتہ سال اکتوبر میں وزیراعظم عمران خان کے دورۂ چین سے ایک دن قبل، حکومت نے سی پیک اتھارٹی آرڈیننس جاری کیا تھا تاکہ چین کو پاکستان کے ذریعے بحیرۂ عرب سے جوڑنے والے اربوں ڈالر مالیت کے روڈ اور ریل نیٹ ورک پروجیکٹ سے جڑے منصوبوں میں تیزی لائی جا سکے۔ اس کا مقصد چین کو یہ پیغام دینا تھا کہ پاکستان سنجیدہ ہے اور اس نے سی پیک کیلئے قانونی میکنزم تشکیل دیا ہے۔
تاہم، آرڈیننس کی معیاد ختم ہوگئی اور پارلیمنٹ نے اسے منظور نہیں کیا۔ آئین کے تحت کسی بھی جاری کردہ آرڈیننس میں صرف ایک مرتبہ ہی توسیع کی جا سکتی ہے۔ حکومت کی طرف سے ایسی کوئی وضاحت جاری نہیں کی گئی کہ سی پیک اتھارٹی کا قانون لانے میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے۔ گزشتہ ماہ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے دوران ایف اے ٹی ایف سے جڑے کچھ قانون منظور کیے لیکن سی پیک اتھارٹی کو قانونی تحفظ دینے کیلئے کسی قانون سازی سے گریز کیا۔
ایک اطلاع یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ میں مطالبہ سامنے آ رہا ہے کہ 21؍ رکنی غیر جانبدارانہ سی پیک کمیٹی تشکیل دی جائے جس میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان شامل ہوں اور اس کا کام سی پیک اتھارٹی کے کاموں کی نگرانی کرنا ہو۔ یہ واضع نہیں کہ اس معاملے پر حکومت کی سوچ کیا ہے اور آیا اتھارٹی پلاننگ ڈویژن کے ماتحت ہوگی یا اسے ایک آزاد ادارہ بنا کر وزیراعظم کو جوابدہ بنایا جائے گا۔
نوٹ: یہ خبر 13 اکتوبر 2020 کے روزنامہ جنگ میں شائع ہوئی