22 اکتوبر ، 2020
'کورونا نے تو سمجھو ہمیں تباہ کردیا۔ پہلے ہی دو وقت کی روٹی کمانا مشکل ہو رہا تھا اوپر سے کورونا کی آفت نےگھر بٹھایا تو نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔'
کراچی کے علاقے صدر کی ایمپریس مارکیٹ کی فٹ پاتھ پربیٹھی پلاسٹک کے تھیلوں سے سامان نکالتی شاردا دیوی کی آواز میں شکوہ بھی تھا اور دکھ بھی۔
کئی سالوں سے فٹ پاتھ کو اپنی ‘دکان’ بنائے بیٹھی خواتین سے ملنے ایمپریس مارکیٹ کی فٹ پاتھ پہنچی تو شاردا دیوی کی کم عمر بہو پریتی نے بیٹھنے کے لیے اسٹول پیش کیا۔ دھوپ کی شدت سے بچنے کے لیے پرانے کپڑوں سے بنائی چھتریوں کے نیچے تین نسلیں شاردا دیوی،ان کی تین بیٹیاں اورپوتی اپنے اپنے ‘ٹھئیے’ لگانے میں مصروف تھیں۔
ہندو برادری سے تعلق رکھنے والی شاردا دیوی، ان کی تین بیٹیاں، پوتی اور بہو ایمپریس مارکیٹ کی فٹ پاتھ پر بادام، پستے، اخروٹ، سونف کا ٹھیا لگاتی ہیں۔ شاردا روز صبح اپنی رہائش گاہ لی مارکیٹ سے جوڑیا بازارپہنچتی ہیں۔ ٹھیکدار سے کمیشن کی بنیاد پر ڈرائی فروٹ لیتی ہیں جو ایمپریس مارکیٹ لے جا کر فروخت کرتی ہیں۔
رات کے آٹھ نو بجے تک دوتین سوروپے روز کمائی ہوجاتی ہے جب کہ پانچ سو روپے ٹھیکداربھی دیہاڑی دیتا ہے۔
شاردا کہتی ہیں ‘میں چالیس پچاس سال سے اسی فٹ پاتھ پرڈرائی فروٹ بیچ رہی ہوں۔ دنیا بدل گئی، مارکیٹ بدل گئی، سب بدل گیا لیکن ہم یہاں کے یہاں ہی ہیں۔غریب آدمی کو اپنا پیٹ تو پالنا ہے۔ چاربیٹیاں اور دوبیٹے ہیں۔'
'سڑک کنارے بیٹھ کر جو ڈرائی فروٹ فروخت کیے اس سے بیٹیوں اورایک بیٹے کی بھی شادی کی۔ میرے شوہربادام اخروٹ کی گلی گلی میں پھیری کرتے تھے، ان کی موت کے بعد مجھے گھر سے نکلنا پڑا تو میں نے بھی ڈرائی فروٹ ہی بیچنا شروع کیے۔ پہلے علاقہ اچھا تھا، لوگ بھی اچھے تھے، اب تو مہنگائی کر دی ہے۔ بیٹھنے بھی نہیں دے رہے۔’
شاردا دیوی کے مطابق زیادہ تر خواتین جو جوڑیا بازار میں دالیں، چاول اور دیگر اجناس فٹ پاتھ پر فروخت کرتی ہیں وہ بھی انہی کی برادری کی ہیں، کچھ کی رہائش سوامی نرائن مندر تو کچھ ہنگلاج ماتا کے مندر کے کمپاؤنڈ میں رہائش پذیرہیں۔
شاردا کہتی ہیں کہ 'پہلے روز کے چھ سات سو روپے کما لیتے تھے اب تو تین سو کمانا مشکل ہے۔ اتنی غربت ہے۔اسی روپے کلوتوآٹا ہوگیا ہے۔پانچ کلوآٹا لاؤ تودووقت چلتا ہے،سترسال کی شاردا دیوی نے بتایا۔'
کورونا وائرس کی دوسری لہر کے باعث ایک اورلاک ڈاؤن سےخوفزدہ شاردا دیوی کا کہنا تھا کہ کورونا نے تو ہمیں سمجھو ختم کر دیا۔ نوبت فاقوں اوربھیک مانگنے تک پہنچ گئی تھی۔ کورونا وائرس کی وجہ سے سب بند ہوا تو تین چار مہینے بھیک مانگنا پڑی۔ برا بھی لگا کہ ہم محنت کرنے والوں کو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانا پڑا لیکن مجبوری میں بچوں کو فاقوں سے بچانے کے لیے کوئی چارہ نہیں تھا۔ کسی سرکاری یا ہندو تنظیم نے کوئی مدد نہیں کی۔
شاردا دیوی سے تقریبا دو دو فٹ کے فاصلے پربیٹھی ان کی بیٹیاں کملا اورمنگلا مشکل حالات میں کسی جانب سے مدد نہ ملنے پر ناراض دکھائی دیں۔
اپنے حالات پر شاردا دیوی کی چھوٹی بیٹی کملا کے لہجے میں تلخی گھلی ہوئی تھی۔ اس نے کہا کہ ‘آپ خود اندازہ کریں اس طرح سڑک کنارے فٹ پاتھ پربیٹھ کرروزی کمانا کتنا مشکل کام ہے۔ میں بچپن سے اپنی ماں کے ساتھ یہاں آتی تھی اور اب خود پانچ بچوں کی ماں ہوں۔ زمانہ اور وقت کتنے بھی بدل گئے ہوں، ہمارے حالات تو بد سے بدترین ہو گئے۔شاید ہمیں تو انسان بھی کوئی نہیں سمجھتا’۔
برسوں سے خشک میوہ جات کا کاروبار کرتی ان خواتین کو نہ صرف مالی تنگی بلکہ صحت کے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ سڑک سے گزرتی سیکڑوں بسوں، گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کا دھواں۔ ٹریفک کا شور اور آلودگی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
منگلا دیوی کا کہنا تھا ‘ہم میں سے اکثر کو سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔ جلد پر دانے اور خارش جیسی بیماریوں کا سامنا بھی ہے۔ بارہ بارہ گھنٹےگاڑیوں اوربسوں کے شور میں گزارنے سے سننے میں بھی کمی آتی ہے۔ یہاں کھانے کو نہیں تو مہنگے مہنگے علاج کہاں سے کرائیں۔ بس جو جس حال میں ہے طبیعت بہتر ہونے پر کام پر آجاتا ہے۔ زیادہ دن گھربھی تونہیں بیٹھ سکتے’ ۔
ایمپریس مارکیٹ کے باہربیٹھی خواتین کی آمدنی اور روزگار کا شمار غیر دستاویزی معیشت میں کیا جاسکتا ہے۔ ان خواتین کو متعدد چینلجز کا سامنا ہے۔ ان کا منافع کم اور فیملی سائزبڑا ہوتا ہے۔ محدود آمدنی اوربڑاخاندان ان کام کوکچھ بہترکرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ سماجی تحفظ نہ ہونا، مارکیٹ اور اطراف میں ڈرائی فروٹ کی بڑی دکانیں بھی ان کے منافع اور آمدنی میں کمی کے اسباب میں شامل ہیں۔
خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی غیرسرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر مہناز رحمٰن نے محنت کش خواتین سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ 'یہ خواتین درحقیقت چھوٹے پیمانے پرکاروباری خواتین ہیں۔ یہ خواتین تجاوزات کی زد میں بھی آجاتی ہیں جس سے ان کا روزگار خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ حکومت کو ان خواتین اور ان جیسے دیگر افراد کے لیے سوشل سیکیورٹی سسٹم لانا چاہیے۔'
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس مضمون کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔