Time 14 دسمبر ، 2020
بلاگ

تیسری قوت کی مداخلت ؟

فوٹو: فائل

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اگلے روز لاہور میں پاکستان مسلم لیگ(ن) کی نائب صدر مریم نواز سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ ایسے حالات پیدا نہیں کرے گی کہ اُن سے فائدہ اٹھا کر تیسری قوت مداخلت کر سکے۔

بلاول بھٹو زرداری کے یہ الفاظ سیاسی کلامِ رموز سے تو تعبیر کیے جا سکتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا تیسری قوت پاکستان کی سیاست میں دخیل نہیں ہے اور اِس وقت پی ڈی ایم اور حکومت کے مابین تصادم کی جو صورتحال پیدا ہو گئی ہے، کیا وہ تیسری قوت کی مداخلت کے بغیر اپنے منطقی انجام تک پہنچ سکے گی؟

حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم اور حکومت کے مابین تصادم کی فضاء بن چکی ہے اور کوئی بھی فریق اپنے مؤقف میں لچک لانے کے لیے تیار نہیں ہے، پی ڈی ایم نے لاہور میں بھی اپنی سیاسی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔

لاہور میں حکومت کے خلاف پی ڈی ایم کا یہ آخری جلسہ تھا۔ ملتان کی طرح لاہور میں بھی حکومت نے جلسے کی اجازت نہ دے کر جلسے سے پہلے اپوزیشن کے کئی جلسے اور ریلیاں منعقد کرنے کے مواقع پیدا کر دیے۔ 

مسلم لیگ(ن) کی رہنما مریم نواز کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے 13دسمبر کے جلسے سے پہلے لاہور کے عوام کو متحرک کیا، لاہور کے سیاسی پاور شو کے بعد حکومت پر سیاسی دباؤ بڑھا ہے۔

یہ اور بات ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک اُس زعم میں ہے کہ اُسے کوئی فرق نہیں پڑے گا، احتجاجی جلسوں کا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد پی ڈی ایم اپنی تحریک کے اگلے مراحل کی طرف بڑھے گی، اُن کے پاس اسمبلیوں سے مستعفی ہونے، ہڑتال، پہیہ جام، لانگ مارچ اور اِن ہاؤس تبدیلی کے آپشنز موجود ہیں۔ اِس سے تصادم میں اضافہ ہوگا، کورونا کی وبا میں شدت آنے کے باوجود اپوزیشن پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہیں۔

اِس صورتحال کے تدارک کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی سنجیدہ اقدام نہیں کیا جا رہا۔ حکومت بھی تصادم کو تیز کرنے کی راہ پر گامزن ہے۔ پی ڈی ایم کی تحریک کے اگلے مرحلوں سے نمٹنے کے لیے وفاقی کابینہ میں وزراء کے قلمدان تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ خاص طور پر شیخ رشید احمد کو داخلہ کا قلمدان سونپ دیا گیا ہے، عام تاثر یہ ہے کہ حکومت شیخ رشید کے ذریعے اپوزیشن کو قابو کرنا چاہتی ہے۔

یہ بات تصادم کی آگ پر مزید تیل چھڑکنے کے مترادف ہو سکتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور اُن کی ٹیم کے دیگر ارکان اپوزیشن رہنماؤں کے بارے میں جو بیانات دے رہے ہیں، اُن سے بھی اپوزیشن میں اشتعال پیدا ہو رہا ہے۔

اگرچہ بار بار یہ کہا جا رہا ہے کہ حکومت مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اپوزیشن سے سنجیدہ مذاکرات کرنے کی کوئی ٹھوس کوشش نہیں ہورہی۔ جتنی دیر تک تصادم کی فضاء برقرار رہے گی، ملک کے سیاسی اور داخلی استحکام کے ساتھ ساتھ معیشت پر بھی اُس کے اتنے ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

اِس سے حکومت بھی کمزور ہوتی جائے گی اور عوام میں بےچینی بھی بڑھتی جائے گی۔ احتجاجی، جلسوں، جلوسوں، ہڑتالوں اور لانگ مارچ وغیرہ سے حکومت ختم ہونے کا کوئی قانونی اور آئینی راستہ نہیں ہے۔ تیسری قوت کے اقتدار پر قبضے کا آئینی راستہ بھی بظاہر بند ہے کیونکہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف فیصلہ دینے والا عدالتی بینچ اگرچہ ٹوٹ گیا تھا لیکن اِس فیصلے کی تلوار ابھی تک لٹک رہی ہے۔ اب کوئی عدالت بھی اقتدار پر تیسری قوت کے قبضے کی توثیق نہیں کر سکتی۔

یہ دونوں راستے بند ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی ٹکراؤ اور تصادم موجود رہے گا اور اُس کے ملک پر خطرناک اثرات مرتب ہوتے رہیں گے۔ ایسی صورتحال از خود تیسری قوت کے ایسے کردار کا جواز پیدا کرتی ہے، جسے Political Maneuveringسے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ تیسری قوت کا یہ کردار پاکستان کی سیاست میں موجود ہے اور شاید یہ آئندہ بھی رہے گا۔

پی ڈی ایم کی قیادت کے بھی تیسری قوت سے رابطوں کی خبریں آ رہی ہیں۔ پی ٹی آئی کے حکمران بھی اپنے بیانات میں بین السطور یہ تاثر دیتے ہیں کہ اُنہیں تیسری قوت کی مکمل حمایت حاصل ہے۔

پاکستان میں اب تک سیاسی استحکام پیدا نہ ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ سیاسی قوتیں اسی کی طرف دیکھتی ہیں۔ سیاسی قوتوں نے بھی اپنے طور پر مسائل حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

آج اس مرحلے پر اگر حکومت اپنے طور پراپوزیشن کو بامقصد مذاکرات کی میز پر لے آتی اور اپوزیشن بھی مذاکرات کے لیے کسی ایجنڈے پر راضی ہو جاتی تو شاید تیسری قوت کی مداخلت کے امکانات کسی حد تک کم ہو جاتے لیکن پاکستان میں اس وقت جو سیاسی عمل ہے، وہ اپنے جوہر میں تیسری قوت کی مداخلت پر انحصار کرتا ہے، ویسے تو پاکستان میں بہت پہلے سے فوج، پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان وسیع تر مذاکرات کی تجاویز دی جا رہی ہیں، جن کی اشد ضرورت ہے تاکہ اداروں کی حدود کا تعین کیا جا سکے لیکن اس گرینڈ ڈائیلاگ کے انتظار میں تصادم کی موجودہ صورتحال کو مزید خراب نہیں ہونے دیا جا سکتا۔

پی ٹی آئی کی حکومت کی کارکردگی اور اپوزیشن کے احتجاج کے جواز کو مدنظر رکھتے ہوئے تیسری قوت کی معاونت سے کوئی راستہ نکالنا چاہئے تاکہ ملک مزید مشکلات کا شکار نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔