04 جنوری ، 2021
موت وہ اٹل حقیقت ہے جس کا مزہ ہر ایک کو ہر حال میں چکھنا ہے۔ فیصلہ میرے رب نے کرنا ہے کہ کس کو زندگی کی کتنی مہلت دینی ہے۔ بیماری اور شفاء بھی میرے رب کی طرف سے آتی ہے اور ہمیں ہر حال میں اپنے رب کا شکر ادا کرنا چاہئے۔
بیماری، مصیبت، مشکل اور آزمائش کی صورت میں صبر اور نماز کی ہمارا دین ہمیں تعلیم دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہنا بھی ہمیں اسلام سکھاتا ہے۔ زندگی میں اگر مشکلات، مصیبتیں اور آزمائشیں آتی ہیں تو آسانیاں، بہتر اور اچھے دن بھی آتے ہیں۔
یہ بھی ہمارا ایمان ہے کہ ہم سب کی تقدیر کا فیصلہ ہو چکا۔ جب سے کورونا کی وبا پھیلی اِس نے دنیا بھر میں ایک ایسا خوف پیدا کیا جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اگرچہ ماضی کے برعکس اِس خوف کی شدت میں کمی آئی ہے۔
باوجود اِس کے کہ کورونا کی دوسری موجودہ لہر پہلے کے مقابلہ میں زیادہ خطرناک ثابت ہو رہی ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگ سمجھتے ہیں جیسے موت تو صرف کورونا سے ہی آنی ہے اور اگر ہم کورونا سے بچ گئے تو پھر ہمیں کبھی نہیں مرنا ہے۔
کورونا کا خوف کچھ ایسا رہا اور ہے کہ اِس کے مریضوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا رہا وہ مجھے ہمیشہ دکھ دیتا تھا اور میں سوچتا تھا کہ جب کسی مریض کو اچھوت کی طرح سمجھا جائے گا، کوئی اُس کے قریب جانے کو تیار نہیں ہوگا۔
ڈاکٹرز یا تو دور دور سے ایسے مریضوں کو دیکھ کر علاج تجویز کر رہے ہوں گے یا اگر قریب جائیں تو ایسا لباس زیب تن کر کے جائیں گے جیسا کہ خلائی مشن میں جانے والوں نے پہنا ہوتا ہے تو مجھے یہ عجیب محسوس ہوتا تھا۔ جب تک میں خود کورونا کا شکار نہیں ہوا۔
میں سوچتا کہ نجانے ایسے ماحول میں کورونا کا مریض جسے اچھوت سمجھا جاتا ہو، جسے ایک ایسے ماحول میں رکھا گیا ہو جو نفسیاتی طور پر مریض کے لئے انتہائی منفی اور اُسے مزید بیمار کر دینے والا ہو، وہ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے؟
انہی وجوہات کی بنا پر بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے کورونا کے مریضوں کو حکومت کو رپورٹ کرنا بھی چھوڑ دیا اور اپنے اپنے گھروں میں ہی علامات کی بنیاد پر علاج پر زور دینا شروع کر دیا۔
یکم دسمبر 2020کو جب میرا کورونا کا ٹیسٹ مثبت آیا تو میں پریشان نہیں ہوا، اِس امید کے ساتھ کہ بہت سے دوسرے مریضوں کی طرح کچھ معمولی علامتوں کے ساتھ میں بھی اِس بیماری سے گزر جائوں گا لیکن میرے کیس میں ایسا نہیں ہوا اور مجھ پر کورونا کے دو شدید حملے ہوئے جن کے بارے میں جنگ میں شائع ہونے والے اپنے گزشتہ چند کالموں میں ذکر کر چکا۔
اِس کالم کا مقصد قارئین کو اپنے اُس تجربہ سے آگاہ کرنا ہے جس کا سامنا میں نے بحیثیت کورونا مریض کے کیا اور جو اُس وحشت زدہ اور ڈراؤنے ماحول سے بالکل مختلف تھا جس کا میں نے کالم میں اوپر ذکر کیا ہے۔
مجھے کئی برسوں سے الرجی کا مسئلہ ہے جس کے لئے گزشتہ چند برسوں سے میں ڈاکٹر شازلی منظور کو دکھا رہا ہوں۔ ڈاکٹر شازلی الرجی، دمہ، ٹی بی، پھیپھڑوں کے کینسر، چیسٹ اسپیشلسٹ اور پلمنالوجسٹ ہیں۔ مجھے جب کورونا ہوا تو میں نے ڈاکٹر صاحب سے رابطہ کیا۔ میرا علاج شروع ہوا، مرض بڑھ گیا اور مجھے کئی دن اسپتال میں رہنا پڑا۔
جیسا کہ میں اوپر بیان کر چکا کہ بیماری اور شفاء اللہ تعالی کی طرف سے ہی آتی ہے اور میں اپنے رب کا لاکھ لاکھ شکر ادا کرتا ہوں کہ مجھے کورونا کی شدید بیماری کے بعد اللہ نے صحت دی اور ان شاء اللہ بہت جلد میں مکمل صحت یاب ہو جاؤں گا لیکن جس چیز نے مجھے بحیثیت کورونا سے متاثرہ مریض، بہت متاثر کیا وہ ڈاکٹر شازلی اور اُن کی ٹیم کا رویہ تھا جس میں نہ ہی مجھے اور نہ میرے جیسے دوسرے مریضوں کے ساتھ اچھوتوں کی طرح برتاؤ کیا گیا۔
ڈاکٹر صاحب کو میں نے ہمیشہ ڈبل ماسک پہنے تو دیکھا لیکن اُنہوں نے مجھے عام مریض کی طرح کئی بار چھوا، میرا پسینہ بھی صاف کیا۔ یہی حال اُن کے دوسرے ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کا تھا۔ اِس رویہ نے مجھ پر نفسیاتی طور پر بہت مثبت اثر ڈالا جو کسی بھی مریض کے لئے بہت اہم ہو سکتا ہے۔
ایک دن میں نے ڈاکٹر شازلی سے پوچھا کہ وہ ایسا کیوں کرتے ہیں تو اُنہوں نے مجھے بتایا کہ پہلے دن سے جب اُنہوں نے کورونا کے مریضوں کا علاج شروع کیا تو اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ تمام ممکنہ احتیاط تو کریں گے لیکن اپنے مریض کو اچھوت ہونے کا تاثر نہیں دیں گے۔
کہنے لگے پہلے دن اُنہوں نے اپنی فیملی سے بات کی اور کہا کہ اُن کی زندگی میں ایک ایسا مرض آ گیا ہے جو خطرناک ہے، اُنہیں بھی متاثر کر سکتا ہے لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُن کے لئے انسانی خدمت کا بہت بڑا موقع ہے جسے وہ کسی طور پر بھی کھونا نہیں چاہتے، چاہے اِس میں اُن کی اپنی زندگی کے لئے بھی خطرہ کیوں نہ ہو۔
ڈاکٹر شازلی نے بتایا کہ اسی نیت کے ساتھ اُنہوں نے اپنے ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف کی ٹیم سے بات کی اور اُنہیں اپنی ٹیم میں شامل کیا جو کورونا کے مریضوں کو اچھوتوں کی طرح نہیں بلکہ عام مریضوں کی طرح ہمدردی اور ممکنہ احتیاط کے ساتھ اُن کا علاج کر سکیں۔
پاکستان بھر میں کئی ڈاکٹرز اور نرسنگ اسٹاف نے کورونا کے علاج کے دوران اپنے زندگیاں قربان کر دیں لیکن یہاں ایک بڑی تعداد ایسے ڈاکٹرز کی بھی ہے جنہوں نے ابھی تک کورونا کے مریضوں کو اچھوت سمجھا ہوا ہے۔
آج کل مجھے ہر ہفتہ ڈاکٹر شازلی کے پاس فالو اپ کے لئے جانا ہوتا ہے۔ وہ کورونا کے درجنوں مریضوں کو روزانہ دیکھتے ہیں، اُن کا نارمل انداز میں معائنہ کرتے ہیں جو میری نظر میں ایک ایسا قابلِ تحسین عمل ہے جسے ہمارے میڈیکل پروفیشنلز کو پورے پاکستان میں رواج دینا چاہئے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)