04 جنوری ، 2021
اسلام آباد سے گذشتہ روز اغوا ہونے والے وکیل حماد سعید ڈار بازیابی کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش ہوگئے۔
لاپتہ وکیل حماد سعید ڈار کے والد کی جانب سے بازیابی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں سماعت ہوئی،اس موقع پر حماد سعید ڈار بازیابی کے بعد عدالت پہنچ گئے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے استفسارکیا کہ آپ کہاں تھے؟ اور پولیس نے کیا کیا ہے اس سے متعلق ؟ جس پر وکیل حماد سعید ڈار نے بتایا کہ گھر سے مجھے اٹھایا گیا تو چہرے پر ماسک اور آنکھوں پر پٹی باندھ دی،پچیس، تیس منٹ گاڑی چلائی گئی اور ایک کمرے میں لے گئے۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ کا کہنا تھا کہ پولیس کی جانب سے فوری کوئی ریسپانس نہیں تھا، جس پر ڈی آئی جی آپریشنز نے کہا کہ ہم نے ایف آئی آر درج کرلی تھی۔
چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ فوری طور پر توکچھ نہیں کیاگیا تھا،متعلہ ایس ایچ او کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے؟ بڑے آدمی کا بیٹاغائب ہو توجو ایکشن لیا جاتا ہے عام آدمی کےلیے بھی ویسا ہی ردعمل ہونا چاہیے، حماد سعید ڈار نے بتایا ہے کہ انہیں اغواء کیا گیا تھا، شکر ہے یہ واپس آ گئے لیکن ریاست کا رویہ درست نہیں تھا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ اسلام آباد وفاقی حکومت کے زیر انتظام علاقہ ہے اور وفاقی حکومت کا مطلب وزیراعظم اور وفاقی کابینہ ہے، ،یہ بہت سنجیدہ نوعیت کامعاملہ ہے،اب تک کبھی بھی پتا نہیں چلا کہ یہ کیا کس نے ہے؟ اس بارگہرائی میں جاکر تفتیش کریں،اس کیس کو مثال بنائیں۔
عدالت نے ڈی آئی جی پولیس سے 10دن میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے سماعت 15 جنوری تک ملتوی کردی۔
خیال رہےکہ گذشتہ روز تھانہ ترنول کےعلاقے جی 16 تھری سے ایڈووکیٹ حماد سعید ڈار کو ان کے گھر سے اغوا کر لیا گیاتھا۔
سلام آباد بار ایسوسی ایشن نے حماد سعید ڈار کے اغوا کے خلاف عدالتی کارروائی کی ہڑتال کا اعلان کرتے ہوئے آج 4 جنوری کو عدالتوں میں پیش نہ ہونے کا اعلان کیا تھا۔