07 جنوری ، 2021
اداسیوں نے مجھے، آپ کو اورمیرے وطن کو گھیر رکھا ہے
کوئی دن بھی موت کی للکار سنے بغیر نہیں گزرتا۔
ایک طرف کورونا اجل کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے پوری دنیا میں سانسوں کی ڈور کاٹتا پھر رہا ہے۔ بستیاں ماتم کناں ہیں۔ جنازے اٹھ رہے ہیں۔ گھر اجڑ رہے ہیں۔ کہیں ماؤں کی گود خالی ہورہی ہے۔ کہیں مائیں اپنی ٹھنڈی چھاؤں سمیت بیٹوں بیٹیوں کو یتیمی کے حوالے کرکے رخصت ہورہی ہیں۔ 2020گھروں کو بیاباں کرتا رہا ہے۔ اب 2021بھی 2020کی تقلید میں موت کا ہرکارہ بن رہا ہے۔ واہگہ سے گوادر تک قضا دندنارہی ہے۔ ہم، آپ، حکمران، اپوزیشن، نوکر شاہی اپنے اپنے معمولات میں ایسے مگن ہیں جیسے وطن کے گلی کوچوں میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہی بیسویں صدی کے جلسے جلوس۔گلا پھاڑ پھاڑ کر نعرے۔ ترجمانوں کی فوج ظفر موج ٹوئٹر سے تیر اندازی کررہی ہے۔ ترجمانوں کی حکومت کے پاس کمی ہے نہ اپوزیشن کے پاس۔
شہر اقتدار میں جہاں استحکام۔ امن اور سکون کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ وہاں کی سفاک پولیس ایک 21سالہ نوجوان کو سامنے سے گولیاں مار کر جان لے لیتی ہے۔ ایک ماں کی تمنّاؤں کا مرکز۔ باپ کے بڑھاپے کا سہارا۔ ایک خاندان کا مستقبل۔ گولی چلانے کی شوقین پولیس کی شقی القلبی کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد پھر بیانات کا لا متناہی سلسلہ ۔ اسامہ ستی کی تصویر۔ اس کی نوجوانی۔ امنگوں بھری آنکھیں۔ اسلام آباد سے کراچی تک مائوں بہنوں اور باپوںکے دل چیر رہی ہے۔ مائیں کیا بچے اس لیے جنتی ہیں کہ کسی رونق بھری سڑک پر ان سے زندگی چھین لی جائے؟ کیا ہم کسی قبائلی معاشرے میں زندگی بسر کررہے ہیں؟ مائوں نے نوجوان بیٹوں کو گھروں پر روک لیا ہے اور گودیں اجڑنی نہیں چاہئیں۔ گولی چلانے والے پولیس اہلکاروں کی مائیں بھی رورہی ہیں۔ ہم نے اتنے بے حس اور پتھر دل بیٹے کیوں پیدا کیے؟
پاکستان ابھی اس نو خیز جوانی کے سوگ میں مبتلا تھا کہ بلوچستان کے علاقے مچھ سے خوفناک، اندوہناک ہوائیں چل پڑیں۔ گیارہ محنت کشوں کے خون کی مہک ان ہوائوں کے کندھوں پر سوار پورے ملک کے دلوں اور ذہنوں میں پھیلنے لگی۔ یہ میرے ہم وطن بھی اپنی ماؤں کے راج دلارے ہوں گے۔ انہوں نے بھی کتنی مرادوں اور منتوں کے بعد دنیا میں آنکھیں کھولی ہوں گی؟ بیٹوں کی پیدائش پر خوش ہونے والے معاشرے کے ان 11گھروں میں ان کی آمد پر کتنی مسرت بکھری ہوگی۔ ان کے ساتھ ساتھ ان گھروں کی آرزوئیں بھی جوان ہوئی ہوں گی۔ کیا کیا امیدیں ہوں گی۔ عزائم ہوں گے؟ یہ تو ہمارے وطن کے لیے بہت ہی لازمی کارکن تھے۔ Essentialتھے۔ یہ بہت ہی دُشوار ذریعۂ معاش سے وابستہ تھے۔ کوئلے کی کانوں میں کام کرناتو ویسے ہی موت کے کنوئیں میں گردش کرنا ہے۔ اتوار کی صبح کی پہلی کرن بھی ان گیارہ ہم وطنوں کو دیکھنے نہیں دی گئی۔ پو پھٹنے سے پہلے ہی ان کی گردنیں تن سے الگ کردی گئیں۔ عزیز رضا۔ محمد ناظم۔ عبدالرحیم۔ انور علی۔ شیر محمد۔ احمد شاہ۔ محمد صادق۔ چمن علی۔ حسین جان۔ آصف علی۔ عبداللہ۔ ایک دن کی مشقت اور تگ و دو کے بعد نیند پوری کررہے تھے۔ اگلے دن کی جفاکشی کے خواب دیکھ رہے تھے کہ ان پر اپنے ہی ہم وطن حملہ آور ہوگئے۔ سوچتے ہوئے ذہن کانپ رہا ہے۔ دل کی دھڑکنیں تیز ہورہی ہیں۔ کیا قیامت ٹوٹی ہوگی۔ بندوقوں کے زور پر ان کے ہاتھ باندھے گئے۔ آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر انہیں دیکھنے سے محروم کردیا گیا۔ طاقت بندوقوں کی نالی سے حاصل ہوتی ہے مگر بندوق استعمال کرنے والوں کا کوئی مقصد تو ہوگا۔ وہ اچانک تو اپنی کمیں گاہوں سے اٹھ کر خراماں خراماں مچھ کی کوئلے کی کانوں میں نہیں پہنچ گئے ہوں گے۔ کہیں اس سازش کے تانے بانے بُنے گئے ہوں گے۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں کیا کررہی تھیں؟ وہ تو اڑتے پرندوں کے پر گننے کی مہارت رکھتی ہیں۔بڑے چھوٹے حکمرانوں کی حفاظت کے لئے مسلح محافظوں کی قطاریں چلتی ہیں۔ ان محنت کشوں کی جان و مال کی حفاظت کے لئے وہاں کوئی گارڈ نہیں تھا۔ ہم نے تو دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کرنے کا دعویٰ کر رکھا ہے۔ ہمارے اپنے افسر جوان انتہا پسندوں کا تعاقب کرتے ہوئے اپنی جانیں نثار کرچکے ہیں۔ بلوچستان تو ہمارے دشمن ہمسایوں کا ترجیحی ہدف ہے۔ بلوچستان ہمارا مستقبل ہے۔ پاکستان کی جان ہے۔ پاکستان کا اقتصادی مستقبل بلوچستان کے پہاڑوں اور غاروں میں پرورش پارہا ہے۔ ہر سڑک پر ناکے لگے ہوئے ہیں۔ تلاشی لی جارہی ہے۔ گاڑیاں چیک کی جاتی ہیں۔ یہ مسلح حملہ آور کیسے ناکوں سے گزر آئے؟
کتنے سفاک تھے یہ لوگ۔ ان کے ذہنوں میں انسانوں کے خلاف کتنی شدید نفرت پیدا کی گئی ہوگی کہ ان کے انتقام کی آگ صرف گولیاں چلانے سے نہیں بجھی۔ ان کی گردنیں تن سے جدا کرتے قاتلوں کے ہاتھ نہیں لرزے ہوں گے۔ انہیں کس نے حکم دیا ہوگا کہ سفاکی کا بھر پور مظاہرہ کرنا ہے؟ ایسے قتل ایسی ہلاکتیں کہ جس سے پورے ملک بلکہ پوری دنیا کو پتہ چلے کہ ان گیارہ محنت کشوں کو کتنی اذیت دے کر مارا گیا تو دنیا پاکستان کو ایک سفاک، بے حس، بے درد معاشرہ قرار دے۔ یہ وحشی قاتل اپنا مشن پورا کرکے واپس بھی چلے گئے۔ کسی نے ان کو نہیں روکا۔ اب بیانات ہوں گے۔ صدر۔ وزیر اعظم۔ وفاقی وزراء، وزرائے اعلیٰ۔ سیاسی لیڈر آگے آگے ہوں گے۔ پی ڈی ایم۔ عمران خان کو اس کا ذمہ دار قرار دے گی۔ ہزارہ والے کب تک جنازے لے کر دھرنے دیں گے۔ ان کی مائوں کی گودیں کب تک اجڑیں گی؟ یہ بھی انسان ہیں۔ پاکستانی ہیں۔ موت ان کا ہی پیچھا کیوں کرتی ہے؟
میں بھی جذباتی ہوکر یہ تحریر پیش کررہا ہوں۔ اگلے کالم میں، میں بھی بھول جاؤں گا۔ حکمرانوں میں سے ، اپوزیشن میں سے کوئی کوئٹہ جائے گا۔ ان کا درد بانٹے گا۔ ہماری خفیہ ایجنسیاں یہ تو بتاتی ہیں کہ فلاں علاقے میں ایسے دہشت گرد داخل ہوں گے۔ فلاں لیڈر کی جان کو خطرہ ہے۔ کیا انہیں خاک نشینوں کی جان کو لاحق خطرات کا پتا نہیں چلتا؟
خون ہی مانگتی رہتی ہے مری پیاری زمیں
پیاس کتنی ہے کہ بجھتی ہی نہیں
رنگ لاتا ہی نہیں اپنے شہیدوں کا لہو
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔