Time 08 جنوری ، 2021
بلاگ

کہاں ہو، تم سب کہاں ہو؟

فوٹو: فائل

کربلا سے لٹا پٹا قافلہ مدینے پہنچا، مدینے سے باہر ایک بوڑھے صحابیؓ نے خاندانِ رسولؐ کی حالت دیکھ کر کہا ’’یہ امت اپنے رسولؐ کو کیا ’’چہرہ‘‘ دکھائے گی؟ پھر اُس کے بعد مدینے کے لوگ حضرت امام زین العابدینؓ کے سامنے کوئی جانور بھی ذبح نہیں کرتے تھے۔ 

یہ مدینے کے باسیوں کا خاندانِ رسولؐ سے عقیدت کا ایک اظہار تھا، کربلا میں جو کچھ ہوا، یہ سب حاکمِ شام کے حکم پر ہوا مگر دربارِ شام میں رسول پاکؐ کی نواسیؓ کے خطاب نے اُن تمام لوگوں کے ارادوں کو پسپا کرکے رکھ دیا جو دشمنِ اسلام تھے، جو دشمنِ اہلِ بیتؓ تھے۔ 

اِس میں کوئی شک نہیں کہ خاندانِ رسولؐ نے قربانیاں دے کر اسلام بچایا مگر تاریخ کے ماتھے پر آج بھی یہ سوال زندہ ہے کہ ’’یہ امت اپنے رسولؐ کو کیا ’’چہرہ‘‘ دکھائے گی؟‘‘

میرے وطن میں گزشتہ اٹھارہ برسوں میں کوئٹہ کئی مرتبہ زخمی ہوا، دکھی ہوا، وہاں فضائیں غمگین ہوئیں، حکمرانوں نے ہر مرتبہ طفل تسلیوں سے کام لیا، دکھی داستان میں مزید دکھ اس وقت ہوتا ہے جب آپ کو یہ پتا چلتا ہے کہ اٹھارہ برسوں میں ایک ہی طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔ 

کوئٹہ کے ہزارہ لوگوں پر اِس دوران 80 حملے ہوئے، سینکڑوں ’’ہزارہ‘‘ افراد موت کی وادی میں اتر گئے، وہاں یتیموں کی لمبی قطاریں ہیں، بہت سی بیوائیں ہیں، کئی بہنیں اداس ہیں، کئی مائیں سوگوار ہیں۔ 

اس مرتبہ شہیدوں میں مزدور شامل ہیں، یہ مزدور محض رزق روٹی کے چکر میں کان کنی کرتے تھے، ان کا قصور اتنا تھا کہ یہ کربلا میں شہید ہونے والوں کا ذکر کرتے تھے، رسولؐ اور خاندانِ رسولؐ سے عقیدت رکھتے تھے، ان کے ناموں پہ اپنے نام رکھتے تھے، آج بھی مسلمانوں کے ملک میں یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ ’’رسولؐ اور ان کے اہل بیتؓ کے ماننے والوں کو شہید کیا جا رہا ہے، قاتلینِ ہزارہ، خدا اور رسولؐ کو کون سا چہرہ دکھائیں گے؟‘‘

جماعت اسلامی کوئٹہ کے رہنما قیوم کاکڑ کا پیغام ملا کہ ’’آپ کو علم ہے کہ سخت سرد موسم میں میرا پیارا گھر کوئٹہ اِس وقت ایک بار پھر غم میں ڈوبا ہوا ہے، درجن کے قریب خون میں لت پت انسانی لاشیں، غمزدہ اقربا کے سامنے پڑی ہیں، ایک بڑی شاہراہ پر کئی دنوں سے مرد و خواتین اور بچے احتجاج کر رہے ہیں‘‘۔ 

صرف قیوم کاکڑ ہی نہیں، ہر وہ پاکستانی دکھی ہے جسے اس دھرتی سے پیار ہے، ہر وہ مسلمان غمزدہ ہے جسے امت سے الفت ہے، ہر وہ انسان پریشان ہے جسے انسانیت سے محبت ہے، ہمارے سیاستدان اپنی اپنی سیاست میں مصروف رہے، جب کوئٹہ کا احتجاج رنگ نہ لایا تو پھر ہزارہ لوگوں سے محبت کرنے والوں نے لاہور، کراچی اور اسلام آباد سمیت کئی شہروں میں احتجاج شروع کر دیا۔ 

احتجاج کرنے والوں میں حکومت کی اتحادی جماعت ایم ڈبلیو ایم پیش پیش ہے، جب احتجاج بڑھا تو سیاستدانوں نے جاگنا شروع کیا، حکومت نے زلفی بخاری اور علی زیدی کو بھیجا مگر احتجاج کرنے والوں نے لاشیں دفنانے سے انکار کر دیا۔ 

ان کا مطالبہ ہے کہ وزیراعظم آئیں تو پھر وہ تدفین کریں گے، اب جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو اطلاع ملی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری، مراد علی شاہ کے ہمراہ جبکہ مریم نواز اسلام آباد کے ڈپٹی میئر ذیشان علی نقوی کے ہمراہ کوئٹہ جا رہے ہیں، اپوزیشن کے یہ رہنما احتجاج کرنے والوں سے اظہار یکجہتی کریں گے، حکومتی وزراء یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ تدفین کر دیں، وزیراعظم جلد کوئٹہ آئیں گے۔

خواتین و حضرات! وزیراعلیٰ بلوچستان کا حال تو آپ دیکھ ہی چکے ہیں، وہ نئے سال کے استقبال کے لیے دبئی گئے ہوئے تھے، وہاں سے وہ دو روز پہلے پہنچے، کیا یہ ہوتا ہے احساسِ ذمہ داری؟ وزیراعظم کی پرانی تقریریں اُٹھا کر دیکھیں کس طرح وہ اِس وقت کے صدر اور وزیراعظم کو کوس رہے تھے، کیا اب انہیں پرانی تقریریں بھول گئی ہیں؟ وہ کیوں کوئٹہ نہیں جا رہے؟ کیا وہ ملک سے باہر ہیں؟

دوستو! جان خدا کو دینی ہے، خدا کی امانت ہے مگر یہ لمحۂ فکریہ ہے، حالات کا ماتم ہے کہ ہمارے اہلِ اقتدار، ہمارا حکمران طبقہ احساسِ ذمہ داری سے غافل ہے، ہمارے اہلِ سیاست اقتدار کے کھیل میں احساس کھو چکے ہیں، اُنہیں شاید خوفِ خدا سے زیادہ اقتدار کی فکر ہے۔ 

پچھلے پانچ دنوں سے منفی سات درجہ میں کھلے آسمان تلے احتجاج کرنے والے آپ کے ملک کے شہری ہیں، پھولوں جیسے بچے، بزرگ، خواتین اور جذبات سے بھرے نوجوان، سرد موسم میں لاشیں رکھے آپ سے کچھ بھی تو نہیں مانگ رہے، صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ وزیراعظم آ جائیں۔ 

چھ بہنوں کے گھر میں جنازہ اٹھانے والا کوئی مرد نہیں، کسی کے سب بھائی چلے گئے، کسی کے سب بیٹے شہید ہو گئے، کوئٹہ کی سوگوار فضا پوچھ رہی ہے کہاں ہیں آپ جناب وزیراعظم؟ میرے چیف جسٹس آپ کہاں ہیں؟ میرے سپہ سالار آپ کہاں ہیں؟ کہاں ہیں آپ سب، کہاں ہیں؟ آج آپ سے سوال ہو رہا ہے آپ کہاں ہیں؟

کل یومِ حساب آپ سے پوچھا جائے گا کہاں تھے آپ، سب کہاں تھے؟ ابھی ایک سیمینار سے واپس آیا ہوں، وہاں جذباتی ماحول تھا، مجھے ایم ڈبلیو ایم کے سربراہ راجہ ناصر عباس کے جملے بار بار یاد آ رہے ہیں کہ ’’کیا ہم بےدردوں کے وطن میں رہتے ہیں؟‘‘ یہ سوال بھی سب کے لئے ہے۔ کوئٹہ کے شہیدوں کے حوالے سے کسی شاعر کے اشعار یاد آ رہے ہیں کہ ؎

جنابِ من یہ بس لاشے نہیں ہیں

سڑک پر مرثیہ لکھا ہوا ہے

گلے کاٹے گئے ہیں خنجروں سے

گلوں پر کربلا لکھا ہوا ہے


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔