08 جنوری ، 2021
میری آنکھیں اِس وقت کوئٹہ میں ہیں، جہاں دھرنا جاری ہے، میرے سامنے لہو منجمد کر دینے والی سردی میں گیارہ میتیں پڑی ہیں مگر مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میرے کاندھوں پر ہزاروں جنازوں کا بوجھ ہے۔
2002 سے اِس وقت تک ہزارہ قبیلہ کے 1600 سے زائد لوگ شہید ہو چکے ہیں اور بےشمار زخمی، میری نس نس میں زخموں کے منہ کھلے ہیں، میرے کانوں میں کئی ہزار مائوں بہنوں کے بین گونج رہے ہیں، مجھے کوئی بتائے کہ ابھی میں نے اور کتنے لوگوں کی میتیں اٹھانی ہیں ابھی اور کتنے گھاؤ میری روح پر لگنے ہیں۔
ابھی میں نے اور کتنے بین سننے ہیں، میں چھ بہنوں کو کیا جواب دوں کہ تمہارا اکلوتا بھائی صادق کیوں شہید کر دیا گیا، میں اُن ماتم کرتی ہوئی عورتوں کو کیسے روکوں جن کے خاندان میں میتیں دفن کرنے کے لیے کوئی مرد نہیں بچا؟ بےگناہی کا بہتا ہوا لہو مری نوکِ مژگاں تک پہنچ چکا ہے۔
آخر کب تک مجھے اِس خونِ ناحق کا ماتم کدہ آباد رکھنا ہے، میں نے کس کس کے گلے لگ کر رونا ہے۔ میں نے کس کس بیوہ کے سر پر چادر ڈالنی ہے، میں نے کس کس بیٹے کی لاش سے لپٹی ہوئی ماں کو پرسہ دینا ہے، یہ کیا ہو رہا ہے، کس لیے مسلسل میرے محبت کرنیوالے عالمی خاندان کے افراد کے سروں کے بیج بوئے جارہے ہیں؟ مجھے آتے موسم کی فصلوں سے ڈر لگ رہا ہے۔اللہ خیر کرے۔
زندگی کے گیت گانے والے گلابو! امن کا درس دینے والی کتابو! تمدن کے تازہ آفتابو! میں اُنہیں کیا جواب دوں، کچھ تو کہو کہ میرے پاس آنسو ہیں، لفظ نہیں، میرے پاس آہیں ہیں، حوصلہ نہیں، میں انہیں کیا بتاؤں کہ تمہارے پیاروں کا جرم کیا تھا، انہیں کس گناہ کی پاداش میں قتل ہونا پڑا؟ میں میتوں کی طرف دیکھتا ہوں تو سوالیہ نشان آنکھوں کے سامنے چکرانے لگتے ہیں۔
میں کیا کہوں کہ تمہارے قاتل کون ہیں؟ کون ہیں یہ سفاک درندے، یہ مرگھٹ کے ٹھیکیدار، آدمی کی کھال کے جوتے پہن کر، ٹوکری میں موت کے گولے بھر کر، یہ جو زندگی کی پگڈنڈی پر چلتے آرہے ہیں، یہ کون ہیں؟
وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان دھرنے میں آئے مگر اُن کی طرف اٹھی ہوئی سوالیہ آنکھیں جھپکی نہیں جا سکیں، ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری بھی خاص طور پر آئے اور مسلسل وہیں ہیں، شہید ہونے والے ان کے ووٹر سپورٹر بھی تھے۔
وزیر داخلہ شیخ رشید آئے اور لوٹ گئے، وفاقی وزیر علی زیدی، سید زلفی بخاری بھی کوئٹہ میں ہیں، ابھی عمران خان بھی آئیں گے، ماضی کی طرح پھر وعدے ہوں گے، لواحقین کو انصاف کا یقین دلایا جائے گا، میتیں قبروں میں اتار دی جائیں گی۔
چند دنوں بعد کربلائے وقت کا ماتم بھی تھم جائے گا مگر اُن درندوں کو عبرت کا نشان کون بنائے گا جو ابھی تک میرے وطن کے سینے میں ظلم کے خنجر اتارتے پھرتے ہیں؟ میرا مطالبہ وزیراعظم عمران خان سے نہیں، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ہے، افواجِ پاکستان سے ہے، ان شخصیات سے ہے جنہوں نے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کرنے والوں کو انجام تک پہنچا دیا تھا، یہ شہید بھی کسی کے بیٹے ہیں، کسی بہن کے بھائی ہیں، کسی باپ کا لختِ جگر ہیں۔
ان کے قاتلوں کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونا چاہیے اس وقت دہشت گردی کے خاتمے کے لیے جو فوج کو اختیارات دیے گئے تھے، فوری انصاف کے لیے جو فوجی عدالتیں وجود میں آئی تھیں، انہیں پھر سے حرکت میں آنا چاہیے۔
بچے کھچے دہشت گردوں کے ناپاک قدموں سے اپنی پاک دھرتی کو محفوط کرنا، ان کے فرائض میں شامل ہے، مریم نواز کو بھی نواز شریف نے دھرنے میں شرکت کا مشورہ دیا ہے، انہیں ضرور شریک ہونا چاہیے مگر شہیدوں کی میتوں پر سیاست کوئی حسن عمل ہر گز نہیں ہوگا۔
اپوزیشن ان کے ساتھ اظہارِ یک جہتی کے لیے ہزار مرتبہ جائے مگر مولانا فضل الرحمٰن یا مولانا غفور حیدری پہلے ان دہشت گردوں کی مذمت تو کریں، پیپلز پارٹی حکومت کے ساتھ مل بیٹھ کر ان دہشت گردوں کے خلاف قانون سازی تو کرے کہ دہشت گردی کا مقدمہ صرف تین ماہ میں عدالتیں مکمل کریں گی۔
دہشت گردی کے مقدمات پر مروجہ قوانین لاگو نہیں ہوں گے اور ہاں کسی مخصوص فرقے کو بھی اس قیامت پر سیاست کی اجازت نہیں ہونی چاہیے، یہ پاکستانی قوم کا اجتماعی المیہ ہے، اس ظلم پرپوری قوم سوگوار ہے۔
عمران خان صاحب! تمام مصلحتیں اٹھا کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیجیے، فاروقِ اعظمؓ نے تو فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے پر بھوک سے مرنے والے کتے کا بھی قیامت کے دن مجھے جواب دینا ہو گا، یہ انسانوں کا قتل ہے، مزدوروں کا قتل ہے، حلال روزی کمانے والوں کا قتل ہے۔
ان پاکستانیوں کا قتل ہے جن کی حفاظت آپ پر فرض کی گئی ہے، صرف ان 11 میتوں کو مت دفنائیے، ہزارہ قبیلہ کے شہید ہونے والوں کےسولہ سو خاندانوں کو انصاف دیجیے، کچھ ایسا کیجیے کہ پھر کسی بچے کے ماتھے پر یتیمی کا داغ نہ لگے، پھر کسی ماں سے اُس کا بیٹا نہ چھین لیا جائے۔ پھر کوئی بہن اپنے بھائی کا ماتم نہ کرتی پھرے۔ اپنے ملک کو امن کا گہوارہ بنائیے۔ اسی میں ترقی کاراز ہے۔ اسی میں ہماری نسلوں کی بہتری ہے، یہی ایک تابناک پاکستان کے لیے ضروری ہے۔ جنگ کیجیے امن کے لیے، جنگ کیجیے ظلم کے خلاف۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔