بلاگ
Time 11 جنوری ، 2021

کرکٹ سے بیزاری کیوں۔۔۔

پاکستان ٹیم حالیہ دورہ نیوزی لینڈ میں بری طرح ناکام ہوئی۔

میرے ساتھ برسوں سے گھر میں کام کرنے والے محمد علی کی شاید دنیا میں دو ہی الجھنیں ہیں۔ راجن پور کا چھوٹو گینگ اور کرکٹ۔

دریائے سندھ کے سنگم پر جنگل کے ساتھ ہی اس کا چھوٹا سا گاؤں ہے، جہاں خوشیاں کم اور غربت زیادہ ہے۔ محمد علی اور اس کےگاؤں کے ہم عمر لڑکے جو کراچی، لاہور اور اسلام آباد کے گھروں میں ملازمتیں کرتے ہیں اور غالباً خوشیوں کے لیے کرکٹ کو گلے لگاتے ہیں۔ محمد علی نے ملازمت کرتے وقت دو شرائط ہی رکھیں۔ ایک کمرے میں ٹی وی جس پر وہ کرکٹ دیکھ سکے اور دوسری ہر روز دو گھنٹے قریب ہی میدان میں کرکٹ کھیلنےکی اجازت۔

ہم دونوں ہی کرکٹ کے دھتی ہیں۔ کانٹے کا میچ ہو تو ساتھ دیکھ لیتے ہیں ۔ سائن بورڈ بھی پڑھنا مشکل لیکن ہمارے “علی بھائی” کو کرکٹ کی معلومات پر دسترس ہے۔ چاہے آسٹریلیا اور انڈیا کا میچ ہو یا جنوبی افریقا انگلینڈ کا مقابلہ، نتائج سے واقف رہتے ہیں اور پاکستانی کرکٹ کے بارے میں اپنے تیئں “مستند” رائے رکھتے ہیں۔

تاہم آج کل پاکستان ٹیم سے سخت نالاں ہیں۔ کرکٹ سے بیزار اور ادھر گاؤں میں چھوٹو گینگ کے سرغنہ کی گرفتاری اور سزا پر جہاں اطمینان حاصل ہوا تھا۔ اب اس کے “چھوٹوں” نے مختلف گروہ بنا لیے ہیں اور ان کی بدمعاشی کی پریشانیوں نے گھیرا الگ ڈالا ہوا ہے۔

پاکستان کی نیوزی لینڈ کے ہاتھوں بد ترین شکست پر خیر شائقین کیا پوری قوم سخت مایوس ہے۔ ٹیسٹ سیریز بھی ہارے اور ٹی ٹوئنٹی میچز بھی۔

اس سے قبل انگلینڈ میں خراب پرفارمنس رہی اور آسٹریلیا میں بھی درگت بنوائی۔

کمینٹری باکس میں بیٹھے نیوزی لینڈ کے سابق عظیم کھلاڑیوں میکلم، میک مِلن اور فلیمنگ نے تو لحاظ کیا لیکن آسٹریلیا کے رکی پونٹنگ نے تو گزشتہ سال بیان داغ دیا تھا کہ آسٹریلوی سرزمین پر طویل عرصہ میں اس سے خراب باؤلنگ اٹیک دیکھا ہی نہیں۔

ظہیر عباس/فائل فوٹو

ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے، شائقین سمجھتے ہیں لیکن خراب کھیلنا اور وہ بھی ہر شعبہ میں۔ ٹی وی کھولیں نیوزی لینڈ کیخلاف تو پچاس اوور، ٹوٹل 60 رنز اور پانچ کھلاڑی آوٹ، جب اسکرین پر نظر ڈالیں بیٹسمین لڑکھڑاتے ہوئے۔ دوسری طرف تیز بالرز شاہین آفریدی ہوں یا عباس یا نسیم شاہ یا لیگ اسپنر یاسر شاہ وکٹیں لینے میں ناکام۔ اگر کیچ نکل بھی جائے تو پکڑے گا کون۔ ٹیم میچ کے آغاز سے اگر دفاعی حکمت عملی اپنائے اور شکست خوردہ نظر آئے تو شائقین کا دل اچاٹ ہوگا ہی، جن کے ذہنوں کو اب تک سنہرے ماضی کی یادوں نے جکڑا ہوا ہے۔

جارحانہ، غیر روایتی کھیل اور بے پناہ ٹیلنٹ کی وجہ سے پاکستان کے کرکٹرز پوری دنیا میں پہچانے جاتے تھے اور تماشیوں کے دل میں گھر بناتے تھے۔

چوالیس سال پہلے ماجد خان نے کراچی میں نیوزی لینڈ کیخلاف لنچ سے پہلے سنچری اسکور کی تھی۔

مشتاق، ظہیر عباس، آصف اقبال اور  جاوید میانداد، للی، تھامسن کا جی داری سے مقابلہ کرتے تھے۔ بیدی، پرسنا اور چندر شیکھر کی دھنائی لگاتے تھے۔ بغیر ہیلمٹ ، بالوں کو جھٹکتے ہوئے وسیم راجہ کی ویسٹ انڈیز میں رابرٹس، کرافٹ اور گارنر جیسے تیز بالرؤں کیخلاف اننگز کون بھول سکتا ہے۔

سرفراز نواز کا ملبرن میں ریورس سوئنگ کے جادو سے نو وکٹوں کا اسپیل۔ اسی کی دہائی میں عمران خان کی یادگار اور جارحانہ باؤلنگ، ان کی کپتانی میں انگلینڈ، انڈیا کی سر زمین پر ٹیم کو فتح دلوانا۔

عمران خان/فائل فوٹو

ناتسخیر سمجھی جانے والی ویسٹ انڈیز کیخلاف جانبدارانہ امپائرنگ کے باوجود سیریز برابرکرنا۔ عبدالقادر کی لیگ اسپین اور گگلی بولنگ کی جادوگری کہ آسٹریلوی گریٹ کھلاڑی اور کمینٹیٹر رچی بینو بھی عش عش کر اٹھے۔

عظیم لیگ اسپنر شین وارن جب 1996 ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے لاہور آئے تو عبدالقادر کے درشن کیے اور باؤلنگ ٹپس لیں۔

ثقلین مشتاق نے دنیا میں آف اسپن بولنگ میں “دوسرا” ایجاد کر ڈالا جس نے ون ڈے کرکٹ کی ہیت بدل ڈالی۔ مرلی دھرن نے ثقلین سے “دوسرا” گیند ڈالنا سیکھا اور وکٹوں کے انبار لگا دیے۔

ثقلین مشتاق نے دوسرا ایجاد کیا۔

وسیم، وقار کی جوڑی والش اور امبروز کے ساتھ کرکٹ کی دنیا میں تیز بالروں کی عظیم ترین جوڑی سمجھی جاتی تھی۔ دونوں نے 61 میچ ساتھ کھیلے اور 559 وکٹیں لیں۔ شعیب اختر دنیا کے تیز ترین بال بنے، شائقین کے دلوں کی دھڑکن کو اپنے رن اپ کےساتھ لےکر دوڑتے۔ تیز رفتار گیندیں، ریورس سوئنگ کا آرٹ۔۔۔

سعید انور، انضمام، آفریدی، عبدالرزاق کی جارحانہ بیٹنگ۔ راشد لطیف کی نقائص سے پاک پھرتیلی کیپنگ، معین کی بہادرانہ بیٹنگ۔۔۔ عظیم کھلاڑی اور نا قابل فراموش یادیں۔

نہ سہولیات، نہ کرکٹ سکھانے کی مشینیں، نہ ماڈرن زمانے کی طرح ٹی ٹوئنٹی لیگز کی چمک دھمک، ٹیلنٹ، محنت اور لگن۔۔۔

اسی کرکٹ سسٹم کی پیداوار ہیں، پوری دنیا میں ملک کا نام روشن کیا۔

سابق کپتان اورمعروف کرکٹ ایکسپرٹ راشد لطیف کی رائے میں کرکٹ کی تنزلی کی کئی وجوہات ہیں۔

“ٹیم میں ان دنوں اسٹارز ہیں، نا لیجنڈ کرکٹرز ۔ میچ ونرز ہیں نہیں اور ٹیلنٹ کا فقدان ہے۔”

“پاکستانی کرکٹ کی گزشتہ دہایوں میں کامیابیوں کے اہم جز اس ٹیم میں نہیں ہیں۔ فاسٹ باؤلنگ سے ریورس سوئنگ غائب ہے، اسپن باؤلنگ میں نہ گگلی ہے نہ دوسرا۔”

“پاکستان کا روایتی کھیل اس کا غیر روایتی یعنی جارحانہ انداز تھا۔ اب ہماری غیر روایتی کرکٹ کو کوچنگ کی حفاظتی تحویل میں دے دیا گیا ہے۔“

حنیف محمد/فائل فوٹو

ماضی میں بھی ٹیم کی پرفارمنس خراب رہی ہے۔ کم اسکورز پر بھی آؤٹ ہوتی رہی ہے لیکن امید ہمیشہ رہی کہ ہمارا بولنگ اٹیک حریف ٹیم کو آؤٹ کر دے گا۔ ناممکن کو شاید ممکن بنا دے، لیکن گزشتہ دو تین برسوں میں ٹیم کی مستقل خراب پرفارمنس سے شائقین کا دل اچاٹ ہوتا جا رہا ہے۔

پاکستان کو جہاں غربت، بیروزگاری، انتہا پسندی اور دہشت گردی نے کئی دہائیوں سے گھیرا ہوا ہے، وہاں کرکٹ لوگوں کے لیے خوشیوں کا پیغام رہا ہے۔

کرکٹ کا عشق، جو بڑی حد تک طبقاتی خلیج، لسانی تعصبات، مذہبی انتہا پسندی سے پاک رہا ہے۔

میں نے نائن الیون کے بعد جنوبی وزیرستان کے ایک ہوٹل میں پاکستان، انڈیا کے میچ کے دوران مقامی قبائلیوں کے ساتھ، لمبے بال، سر پر پگڑیاں، کاندھے پر کلاشنکوف ٹخنوں تک والے اسپورٹس شوز میں طالبان بھی دیکھے۔

بانوے کے ورلڈ کپ کی فتح کی بعد کرکٹ کا کھیل پاکستانی معاشرے کی روح میں سرائیت کرگیا۔ قبائلی علاقوں، اور خیبر پختوانخواہ کا مقبول ترین کھیل بن گیا، پہاڑی علاقوں سے کرکٹ اسٹار ٹیم میں آنے لگے۔

1999 کے ورلڈکپ میں پاکستانی ٹیم کو فائنل میں شکست ہوئی۔ فائل فوٹو

اگر ذمہ دار کرکٹ کی دھار کی گہرائی کو سمجھتے تو انتہاپسندی کی روک تھام کیلیے استعمال کر سکتے تھے۔

مدارس میں کرکٹ پر پابندی لگانے کی کوشش کی لیکن طلبا کا شوق اور باغیانہ جذبات کے خدشات کے پیش نظر والی بال کے ساتھ کرکٹ کھیلنے کی بھی اجازت دے دی گئی۔

مدارس کے طلبا کی کرکٹ کی دنیا کے ہیروز عمران خان، آفریدی، شعیب اختر ، پونٹنگ، ٹنڈولکر، ورات کوہلی اور بابر اعظم ہیں۔

سعید انور، انضمام، مصباح داڑھیوں میں ہوں یا بغیر داڑھیوں کے، شائقین کرکٹ اسٹارز کیساتھ مذہبی جزباتیت کی بجائےکرکٹ کے عشق کی جذباتیت سے جڑے رہے۔

تاہم ان دنوں شائقین کی پاکستان ٹیم اور کرکٹرز کیساتھ محبت عداوت میں، جذباتیت غم و غصہ میں بدلی ہوئی ہے۔ کوچز مصباح اور وقار اپنی دفاعی حکمت عملی اور ٹیم کی پہ در پہ شکستوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں ہیں اور کرکٹ کے ان داتا یعنی پاکستان کرکٹ بورڈ کے بگ باس بھی دو دھاری تلوار پر ہیں۔

کرکٹ کی سدھار کیلئے آئے تھے، اتنا بگاڑ دو برسوں میں کیسے اکٹھا کرلیا۔ شائقین اور سابق کھلاڑیوں کے تنقیدی سوالات۔۔۔تین سال قبل انڈیا کیخلاف چیمپئنز ٹرافی جیتنے والی اور ٹی ٹوئنٹی کی نمبر ون ٹیم کے کپتان سرفراز احمد کو یکدم ہٹانے کی وجہ کیا تھی ؟ مصباح گو کھلاڑی بڑے ضرور تھے مگر کوچنگ کے تجربہ کے بغیر ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے عہدے ایک ساتھ کیوں دے دیے گے؟

عمران خان کے سیاسی حریف الگ تنقیدی نشتر چلا رہے ہیں کہ ا ن کی وزارت اعظمی میں کرکٹ ٹیم تو بن نہیں سکی، ملک کے باگ ڈور چلانے کیلیے ٹیم کیسے بنے گی۔

آئ سی سی کے سابق چیئرمین احسان مانی جو ان دنوں کرکٹ بورڈ کے سربراہ ہیں اور ان کے برطانیہ سے “امپورٹ شدہ”وسیم خان دونوں ہی مشکل میں آسکتے ہیں اگر ٹیم کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی۔

احسان مانی اور وسیم خان/فائل فوٹو پی سی بی

ٹی ٹوئنٹی اور پی ایس ایل کی گلیمر جدید کرکٹ اور تماشائیوں کیلیے اہم ہے لیکن ٹیسٹ کرکٹ کیلیے نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔

شعیب اختر کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم کو تاریخ کی نچلی سطح پر لانےاور اس کی ناکامیوں کے ذمہ دار کرکٹ بورڈ اور اس کے ناقص فیصلے ہیں۔

“پاکستان کرکٹ بورڈ نے جو بویا ہے وہی کاٹ رہے ہیں۔ اوسط درجے کے فیصلے، اوسط درجے کی سلیکشن کے اوسط درجے کے نتائج ہی ملیں گے۔”

سابق کھلاڑی اور شائقین کرکٹ نظام کی بہتری کیلئے آپریشن یا سرجری چاہتے ہیں۔ اورذمہ داران کیخلاف احتساب ۔

ماضی میں بھی پاکستان کرکٹ نشیب و فراز کے مراحل سے گزری ہے۔ شائقین مایوسی کا شکار ہوئے ہیں۔ میچ فکسنگ کے الزامات نے پاکستان کرکٹ کو سلیم ملک، محمد آصف اور دانش کنیریا جیسے مایہ ناز کھلاڑیوں سے محروم کیا ہے اور ٹیم کے امیج کو داغدار بھی۔ مگر ہمیشہ کرکٹ شائقین کی جھولیاں میں اپنے رنگ واپس بکھیرتا ہے۔ شائقین امید اور ناامیدی کی اسی کشمکش میں رہتے ہیں۔

ہمارا محمد علی بھی انھی الجھنوں کے ساتھ اپنے گاؤں گیا ہے۔ چھوٹو گینگ کے “چھوٹوں” نے اس کے خاندان کی دو بھینسیں “اغوا” کر لیں ہیں، ان کی واپسی کیلیے “تاوان” کا بندوبست کر رہا ہے۔ آجکل محمد علی کی دو ہی خواہشات ہیں۔ اپنی بھینسوں کی واپسی اور کرکٹ سے جنون کی حد تک پیار کرنے والے شائقین کی طرح پاکستانی کرکٹ کی رونقوں کی واپسی۔

اویس توحید معروف صحافی/لکھاری  ہیں۔ ‎وہ @OwaisTohid پر ٹوئٹ کرتے ہیں۔ ان سے ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے 


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔