11 جنوری ، 2021
ادارہ شماریات کی کورونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران پاکستان میں ’سوشو اکنامک اثرات‘ پر رپورٹ جاری کردی گئی۔
رپورٹ میں اپریل سے جولائی 2020 تک معاشی اثرات کے اعداد و شمار شامل ہیں۔
رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال کورونا کی پہلی لہر کے دوران 2 کروڑ افراد کو ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے اور سب سے زیادہ تعمیرات کے شعبے میں کام کرنے والے متاثر ہوئے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ معاشی مشکلات کے باعث 30 فیصد گھرانے خوراک کی فراہمی پر عدم تحفظ کا شکار رہے، 10 فیصد گھرانے بعض اوقات ایک سے زائد دن بھوکے رہے جبکہ 12 فیصد گھرانوں کو بعض دفعہ پورا دن فاقہ کشی کا سامنا رہا۔
رپورٹ کے مطابق کورونا کی پہلی لہر کے دوران پاکستان میں ایک کروڑ 70 لاکھ سے زائد گھرانوں کی آمدن متاثر ہوئی، مشکل معاشی حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے لاک ڈاؤن کے دوران 54 فیصد گھرانوں نے علاج اور کپڑوں سمیت دیگر مدوں میں اخراجات کم کیے۔
اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ 50 فیصد گھرانوں نے کم معیاری خوراک خریدی، 47 فیصد گھرانوں نے اپنی بچت خرچ کی یا جائیدادیں فروخت کیں، 30 فیصد گھرانوں نے رشتے داروں سے قرض لیا، 8 فیصد گھرانوں نے بچوں کی تعلیم کا سلسلہ توڑا اور 12 فیصد لوگوں نے اپنے قرضوں کی ادائیگیوں میں تاخیر کی۔
ادارہ شماریات کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ خیبرپختونخوا میں 64 فیصد گھرانوں کی آمدن متاثر ہوئی، کراچی میں 59 فیصد، کوئٹہ میں 51 فیصد اور لاہور میں 49 فیصد گھرانوں کی آمدن متاثر ہوئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے شہری علاقوں میں 57 فیصد گھرانوں کی جبکہ دیہی علاقوں میں 49 فیصد گھرانوں کی آمدن متاثر ہوئی، لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہونے والی ورکنگ کلاس سندھ میں 23 فیصد رہی، دوسرے نمبر پرمتاثر ہونے والا صوبہ پنجاب ہے جہاں14 فیصد ورکنگ کلاس متاثرہوئی۔
رپورٹ کے مطابق کورونا کی پہلی لہر میں حکومت نے 19 فیصد گھرانوں کو 12000 روپے دیے، لاک ڈاؤن کے دوران 18 فیصد گھرانوں کی نجی شعبے نے مد کی، مجموعی طور پر 33 فیصد گھرانوں کی مالی امداد کی گئی۔