Time 25 جنوری ، 2021
بلاگ

نئی امریکی انتظامیہ اور پاکستان کیلئے امکانات!

فائل:فوٹو

صدر جوبائیڈن کی نئی امریکی انتظامیہ سے پاکستان کو کیا توقعات ہونی چاہئیں؟ اِس سے زیادہ اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے والے حلقے نئی امریکی انتظامیہ سے کیا چاہتے ہیں اور اُن کے اہداف کیا ہیں؟ 

کیونکہ امریکہ میں نئی انتظامیہ کے آنے سے امریکی داخلی پالیسیوں میں تو شاید بڑی تبدیلیاں رونما ہو سکتی ہیں لیکن خارجہ پالیسیوں میں کوئی بڑی تبدیلی اور کایا پلٹ نہیں ہوگی۔ اس خارجہ پالیسی کے تناظر میں نئی انتظامیہ کی سوچ سے دنیا کے کچھ ملکوں کے لئے کسی حد تک یہ ممکن نظر آتا ہے کہ وہ امریکہ سے وابستہ اپنے مفادات کا بہتر دفاع کر سکیں، جن میں کامیابی ضروری نہیں ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا عہدِ صدارت ختم ہونے سے نہ صرف نئے صدر جوبائیڈن اور ان کی ٹیم کے ارکان بلکہ خود امریکی اسٹیبلشمنٹ کے لوگ بھی ڈونلڈ ٹرمپ والی اپروچ کو یکسر بدلنے کے خواہش مند ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ پالیسیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں ہوگی۔

 سابق صدر ٹرمپ دنیا کو ’’سب سے پہلے امریکہ‘‘ کی نظر سے دیکھتے تھے، جو دراصل امریکی اسٹیبلشمنٹ کی حقیقی سوچ ہے لیکن اس خود ساختہ اپروچ سے امریکی اسٹیبلشمنٹ اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ اس سے امریکہ کا دنیا میں امیج خراب ہوا، امریکی عزائم دنیا پر پھوہڑ انداز میں بےنقاب ہوئے۔ یہ ایک پریشان کن اور انتشار انگیز اپروچ یا حکمت عملی تھی۔ 

ڈونلڈ ٹرمپ کے غیر سفارت کارانہ، غیر ریاست کارانہ اور غیر ذمہ دارانہ رویوں اور بیانات سے امریکہ کے لئے مزید مسائل پیدا ہوئے۔ امریکی اسٹیبلشمنٹ ڈونلڈ ٹرمپ کی کج روی اور غیرسنجیدگی سے ہونے والی شرمساری اور خفگی سے بچنے کےلئے اب نئے صدر جوبائیڈن کی شخصیت کے پیچھے روپوش ہو جائے گی اور امریکہ کو روایتی حکمتِ عملی پر لانے کی جوبائیڈن کی سوچ کی حمایت کرے گی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ کے حلیف اور حریف دونوں امریکہ سے شاکی رہے۔ امریکہ کو روایتی انداز میں دیکھنے کی صدر جوبائیڈن کی اپروچ سے دنیا کے کچھ ملکوں کے لئے مواقع اور آگے جانے کے راستے پیدا ہوں گے۔ پاکستان کے لئے اِسی طرح کے مواقع ہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے دور میں پاک امریکہ تعلقات میں جو کشیدگی پیدا ہوئی تھی، وہ صدر جو بائیڈن کے دور میں نہیں رہے گی۔

اہم بات یہ بھی ہے کہ صدر جوبائیڈن نیٹو ممالک سے تعلقات بحال کر سکتے ہیں۔ وہ عالمی ادارۂ صحت میں امریکہ کو واپس اپنے کردار پر سرگرم کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مسلم ممالک سے امریکہ آنے والوں کے لئے ٹرمپ کے بنائے گئے خصوصی قوانین بھی ختم کر دیئے ہیں۔ وہ عالمی اداروں کا وقار بحال کرنے پر بھی یقین رکھتے ہیں، جو پاکستان سمیت کئی ملکوں کے لئے مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ تیسری بات یہ ہے کہ صدر جوبائیڈن کی نئی انتظامیہ مشرق وسطیٰ کے بارے میں ٹرمپ کی حکمتِ عملی تبدیل کر سکتی ہے۔ نئی انتظامیہ سعودی عرب کی اس طرح حمایت شاید نہیں کرے گی، جس طرح ٹرمپ کر رہے تھے۔ 

نئی انتظامیہ یمن میں جنگ کے حوالے سے بھی مختلف سوچ رکھتی ہے۔ مشرق وسطیٰ کے حوالے سے پالیسی میں اگرچہ بڑی تبدیلی نہیں ہو گی لیکن پالیسی کے حوالے سے اختیار کردہ اپروچ اور حکمتِ عملی سے پاکستان پر دباؤ کم ہو گا۔ سعودی عرب بھی پاکستان سے تعلقات کو سابقہ ڈگر پر لا سکتا ہے اور پاکستان پر ایران، یمن او رخطے کے دیگر ایشوز کے حوالے سے سخت سعودی سوچ اختیار کرنے کے حوالے سے دباؤ کم ہو گا کیونکہ جوبائیڈن ایران سے امریکہ کے معاہدے کو بھی آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔

بھارتی مقبوضہ کشمیر کے بارے میں بھی صدر جوبائیڈن کا موقف ڈونلڈ ٹرمپ سے مختلف ہے۔ اگست 2020ءمیں جب بھارت نے اپنے آئین کا آرٹیکل 370منسوخ کرکے بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی تو جوبائیڈن نے بھارتی اقدام کی ٹرمپ کی طرح حمایت نہیں کی تھی اور اپنے بیان میں بھارت سے کشمیریوں کے بنیادی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کیا تھا۔ ٹرمپ نے پاکستان کی مخالفت میں بھارت کی غیر مشروط حمایت کی تھی اور بھارت پر کوئی ’’چیک‘‘ نہیں چھوڑا تھا۔ 

جوبائیڈن انتظامیہ اگرچہ یوٹرن نہیں لے گی لیکن وہ بھارت پر دباؤ برقرار رکھنے کے لئے پاکستان کے ساتھ تعلق کو نئی جہت دے سکتی ہے۔ ایک اور بات یہ ہے کہ جوبائیڈن بھی ٹرمپ کی طرح افغانستان سے اتحادی فوجوں کے انخلاء کی حمایت کرتے ہیں۔ شاید وہ اس عمل کو زیادہ تیز کر دیں۔ یہ بات بھی پاک امریکہ باہمی اشتراکِ عمل کو فروغ دینے اور تعلقات کو معمول پر لانے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔

 اس کے علاوہ ایک خوش آئند امر یہ ہے کہ جو بائیڈن کی ڈیمو کریٹک پارٹی میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے لوگ خارجہ امور کی ٹیم میں زیادہ ہیں۔ اس سے بھی مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے امریکی حکمت عملی مختلف ہو سکتی ہے۔ یعنی پاکستان کے لئےامکانات اور مواقع موجود ہیں لیکن امریکہ سے تعلقات پر فیصلہ کن کردار ادا کرنے والے پاکستانی حلقوں کو اپنا بڑا ایجنڈا تشکیل دینا پڑے گا۔ سیکورٹی ایشوز کے علاوہ دیگر ایشوز کو بھی پاک امریکہ تعلقات کا حصہ بنانا ہوگا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔