08 فروری ، 2021
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی شہرت ایک آزاد اور نڈر جج کی ہے، کسی بھی جج کے کسی فیصلے سے اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بارے میں ایک تاثر بہت مضبوط ہے کہ اُن کو کسی فیصلے کے لئے ڈرایا دھمکایا نہیں جا سکتا، نہ ہی وہ کسی سے بلیک میل ہونے والی شخصیت ہیں اور اسی بنا پر اُنہیں مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہا ہے، جس کی اُنہیں کوئی پروا نہیں۔
گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران جسٹس فائز عیسیٰ نے میڈیا کی آزادی کی بات کرتے ہوئے وہاں موجود صحافیوں سے سوال کیا کہ جو اخبار نویس یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد ہے، وہ ہاتھ کھڑا کریں جس پر وہاں موجود کسی ایک صحافی نے بھی ہاتھ کھڑا نہیں کیا۔
پھر جسٹس فائز عیسیٰ نے پوچھا کہ جو صحافی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں، وہ ہاتھ کھڑا کریں جس پر تمام صحافیوں نے ہاتھ اُٹھا کر اُن کی بات کی تصدیق کر دی۔
گویا عدالتِ عظمیٰ میں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے ریفرنڈم میں سو فیصد ووٹ سے اِس بات کا فیصلہ ہو گیا کہ پاکستان میں میڈیا آزاد نہیں، میں نے جب یہ خبر سنی تو سوچا کہ جسٹس فائز عیسیٰ کو ایک اور ریفرنڈم بھی کروانا چاہیے تھا جس کا اگرچہ تعلق ججوں اور وکلا سے ہے لیکن بےشک اُس کے لیے بھی وہاں موجود صحافیوں سے ہی سوال کر لیتے۔
میڈیا کی آزادی کے متعلق سوال سے بھی اہم سوال یہ پوچھا جانا چاہیے تھا کہ کیا پاکستان میں عدلیہ آزاد ہے؟ کیا پاکستان کی عدلیہ لوگوں کو انصاف فراہم کرنے میں کامیاب ہو رہی ہےیا نہیں؟ اگر یہ سوال وہاں موجود صحافیوں سے کیا جا تا تو یقیناً اِس سوال کا جواب بھی منفی میں ہی ملتا۔
ایسا نہیں کہ پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں آزاد منش اور نڈر جج نہیں آئے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ عمومی طور پر پاکستان کی عدلیہ کا کردار بہت منفی رہا، آزاد عدلیہ کا خواب خواب ہی رہا اور بار بار عدلیہ نے نہ صرف آئین و قانون کو بالائے طاق رکھ کر طاقتور طبقوں کے آگے سر جھکائے رکھا اور اُنہی کی مرضی اور منشا کے مطابق فیصلے کیے بلکہ یہاں تک کہ آئین و قانون کی دھجیاں اُڑا کر مارشل لاء لگانے والوں کی غداری تک کو تحفظ فراہم کیا اورعوام کو جلد انصاف دینے میں بھی ناکام رہی۔
میری ذاتی رائے میں سب سے اہم سوال عدلیہ کی آزادی کا ہے کیوں کہ اگر عدلیہ آزاد ہو گی تو میڈیا آزاد بھی ہو گا اور ذمہ دار بھی اور تمام اداروں کو آئین و قانون کے مطابق اپنی اپنی حدود میں رکھنا ممکن ہوگا۔
اگر عدلیہ آزاد ہو گی تو اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی حدود سے باہر نکل کر سیاست میں مداخلت نہیں کر سکیں گی، نہ ہی حکومت اور حکمران ملک میں اقربا پروری، رشوت، سفارش، کرپشن کر سکیں گے۔
اگر عدلیہ آزاد ہو تو نہ ہمیں گمشدہ افراد کا مسئلہ درپیش ہوگا اور نہ ہی صحافیوں سمیت اختلاف کرنے والوں کو اٹھانے اور اُن پر تشدد کرنے والے ہی گمنام رہیں گے۔ اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو احتساب کے نام پر جو نیب کر رہا ہے اور جس کے بارے میں بار بار اعلیٰ عدلیہ نے خود بہت سخت فیصلے دیے اور اعتراضات اُٹھائے، وہ تماشا اب بھی جاری و ساری نہ ہوتا۔
عدلیہ آزاد ہوتی تو بہتر طرزِ حکمرانی کے لئے کیے گئے اپنے فیصلوں پر عملدرآمد کرواتی اور بیوروکریسی غیرسیاسی ہوتی، اس میں تعیناتیاں میرٹ کے مطابق ہوتیں اور سیاستدانوں یا بیرونی مداخلت سے روز روز سرکاری افسروں کو ایک جگہ سے دوسری جگہ نہ پھینکا جاتا۔
اگر عدلیہ آزاد ہو گی تب ہی آئین کی پاسداری اور قانون کی حکمرانی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے اور یہ حقیقت سب پر عیاں ہے کہ پاکستان میں نہ آئین کی پاسداری کی جاتی ہے اور نہ یہاں قانون کی حکمرانی موجود ہے۔
پاکستان میں تو انصاف کی فراہمی سب سے بڑا خواب ہے، یہاں تو لوگ انصاف کے لیے عدالتوں میں جانے سے ڈرتے ہیں، ایک طرف اسٹے آرڈرز اور دوسری طرف مہنگے وکیل، یہ صورتحال ظالم، پیسے والے اور طاقت ور کے لئے تو بہت بہتر ہے لیکن مظلوم پر مزید ظلم ہے۔
چھوٹے چھوٹے مقدمات میں برسوں بلکہ دہائیوں میں فیصلے نہیں ہوتے جس کی وجہ سے عام آدمی عدالت جانے سے ڈرتا ہے۔ سپریم کورٹ کے آزاد منش ججوں کو جب ٹارگٹ کیا جاتا ہے تو اُنہیں انصاف ملنے میں مشکل پیش آتی ہے تو ایک عام پاکستانی کو کون انصاف دے گا؟
سپریم کورٹ کے جسٹس ریٹائرڈ جواد ایس خواجہ جب سپریم کورٹ میں تھے تو اُن کے خلاف اسلام آباد میں بینرز لگا دیے گئے کیوں کہ وہ بھی جسٹس فائز عیسیٰ کی طرح آزاد اور نڈر تھے۔ اس پر سپریم کورٹ نے نوٹس لیا لیکن کچھ نہیں ہوا اور کسی ذمہ دار کو پکڑ کر سزا نہیں دی جا سکی حالانکہ بہت سے ثبوت سامنے موجود تھے لیکن اُنہیں دیکھنے سے سب قاصر تھے۔ ان حالات میں عام پاکستانی کے ساتھ کیا انصاف ہوتا ہوگا؟ اُس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔