25 ستمبر ، 2012
کراچی… محمد رفیق مانگٹ…امریکی جریدے ’نیو زویک‘ کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو ایران پر حملوں کے موقف پر شدید مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں اور آج کل وہ انتہائی غصے میں ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع باراک کے موقف میں حالیہ ہفتوں میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ جوہری معاملے پر باراک نیتن سے بھی زیادہ جوشیلے یا ہاکش ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ باراک اس بات کا خوشی سے اظہار کرتے پائے گئے کہ کس طرح نوے کی دہائی میں اعلیٰ امریکی حکام اسرائیل سے بار بار وعدہ کر رہے تھے کہ واشنگٹن پاکستان کو ایٹمی دہلیز عبور نہیں کرنے دے گاا ور پاکستان کو ایٹمی طاقت بننے سے روکے گا۔لیکن اسلام آ باد نے آخر کار 1998میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کرکے وہ حد عبور کر لی۔ کلنٹن انتظامیہ نے پاکستان کے اس عمل کی صرف مذمت کی اور پھر جنوبی ایشیاء کی اس نئی حقیقت کو تسلیم کر کے خاموشی اختیار کرلی اور خودکو ایڈجسٹ کر لیا۔سابق اہلکار کے مطابق اسرائیلی وزیر دفاع باراک نے پاکستان کی مثال سے یہ سبق سیکھ لیا کہ زرہ بکتر امریکی یقین دہانی بھی حقیقت میں زرہ بکتر نہیں ہوتی ۔جریدے کے مطابقحالیہ مہینوں میں پہلی بار اسرائیلی رہنما نے سیکوریٹی کابینہ میں ایرانی جوہری پروگرام پر بحث کی اجازت دی جو کہ اچھا عمل نہیں ۔ کابینہ کے کئی ارکا ن اسرائیل کے اتحادی او رمحافظ امریکا کے اس منطق کے متعلق سوال کرتے نظر آئے کہ نومبر میں صدارتی انتخابات سے قبل ایران پر حملہ کرنے امریکا انکار ی کیوں ہے۔سات گھنٹے تک جاری یہ بحث جاری رہی اور جب سیکورٹی سربراہان نے بحث کا آغاز کیا تو ان میں دو نے نیتن یاہو کی ایران کے متعلق بیان کی مخالفت کی جس میں انہو ں نے اس پیش قدمی کا اظہار کیا کہ اس سے قبل ایران اپنے جوہری ہتھیار زیرزمین لے جائے اسرائیل اس سال حملہ کر دے گا۔سیکورٹی کابینہ کے اس خصوصی اجلاس کی کارروائی کا اگلی صبح اسرائیلی ذارئع ابلاغ میں افشاء ہونا نیتن یاہو کے لئے واضح پیغام تھا یہی وجہ تھا کہ نیتن یاہو کو اس ایشو پر دوسری بار گفت وشنید کو فوری منسوخ کرنا پڑا۔ سیکورٹی کابینہ کی بحث انتہائی خفیہ رکھی جاتی ہے اور اس کا افشاء ہو نا غیر معمولی امر تھا۔ حکومتی ارکا ن کو ایران کے متعلق نیتن یاہوکی پالیسی پر تحفظات ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس ا یشو کو عوام کے سامنے آنا چاہیے۔ نیتن یاہو کے سامنے کوئی راستہ نہیں کئی ماہ سے وہ اس بات کا اشارہ دیتے رہے کہ اگر اوباما انتظامیہ نے ایران کو یو رینیم افزودگی سے روکنے کے خاطرخواہ اقدامات نہ کیے تو وہ ایران پر حملہ کر دیں گے۔اب ان کے سامنے داخلی سطح پر فوجی کارروائی کے لئے حمایت حاصل کرنا مشکل ہو گیا ہے۔یہ جھٹکا عارضی ہو سکتا ہے ان کے مخالفین ایرانی جوہری تنصیبات پر حملے کی بجائے واشنگٹن کی نافرمانی پر اس کی زیادہ مخالفت کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ حالیہ ہفتوں میں واشنگٹن اور یروشلم کے درمیان بڑھتے فاصلے سے پریشان ہیں۔ملکی سطح پر اس کی مزاحمت میں وسعت آرہی ہے جس پرقابو پانا مشکل ہے، مخالفت کرنے والوں میں اب سرکاری ارکان،فوجی حکام حتیٰ کہ وزیردفاع ایہود باراک بھی شامل ہیں۔اسرائیلی وزیر دفاع نے رواں برس نصف درجن سے زیادہ امریکا کے دورے کیے ،انہوں نے ذرائع ابلاغ میں شائع ان خبروں کی تردید کی کہ وہ اور نیتن یاہو ایران کے مسئلے پرالگ موقف رکھتے ہیں۔باراک کی حمایت کے بغیر نیتن کبھی بھی ایران پر حملے کا فیصلہ نہیں کریں گے۔ گزشتہ برس کئی سیکورٹی سربراہوں نے ایران کے خلاف فوجی ایکشن کی مخالفت کی۔جریدے کے مطابق جنگ کی طرف جانے کے کسی بھی فیصلے کی منظوری سیکورٹی کابینہ سے ضروری ہے، جہاں فوج اور انٹیلی جنس کے موجودہ سربراہوں کی زیادہ اہمیت مانی جائے گی ۔باراک کسی بھی فوجی کارروائی کے خلاف ہیں اور باقی فوجی حکام بھی اس طرح کی کارروائی کی مخالفت کررہے ہیں۔جریدے کے مطابق کسی فوجی ایکشن میں باراک اہم پوزیشن رکھتے ہیں۔ رائے عامہ بھی نیتن پر دباوٴ ڈال رہی ہے ۔ سابق وزیر اعظم ایریل شیرون کا بھی کہناہے کہ جنگ شروع کرنے کے لیے وسیع عوامی حمایت اور واشنگٹن کے ساتھ ایک تفہیم ہونا ضروری ہے۔نیتن مختلف سروے بھی سامنے رکھ رہے ہیں جو اس کے خلاف جا رہے ہیں گزشتہ برس ایک تھنک ٹینک کی طرف سے کرائے گئے سروے میں27فی صد نے ایران پر امریکی حمایت کے بغیر یک طرفہ حملے کی حمایت کی ۔اسرائیلی حکومت 2013کی بجٹ تجاویز بھی منظور کرانے میں ناکام ہو گئی ہے جو اس بات کی نشان دہی ہے کہ موجودہ حکومت زیادہ دیر نہیں چلے گی۔