بلاگ
Time 16 فروری ، 2021

موجودہ نظامِ حکومت

فائل:فوٹو

سوال یہ ہے کہ کیا واقعی بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ کیا موجودہ نظام ہمارے لئے ثمرآور ہے؟ تیسرا سوال کیا قوم موجودہ نظام سے مطمئن ہے؟ اور آخری اور اہم سوال یہ کہ ہم کیسا نظام چاہتے ہیں؟ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوریت بہترین نظام حکومت ہے۔

 اس میں عوام اپنے نمائندوں کا خود انتخاب کرتے ہیں۔ اور جو جس جماعت کے منشور سے متفق ہوتا ہے، اسی جماعت کے امیدوار کے حق میں ووٹ دیتا ہے۔ آزاد امیدوار بھی ہوتے ہیں جو اپنی کارکردگی اور لوگوں کے اعتماد کے بل پر جیت بھی جاتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ جماعتوں کے اندر کتنی جمہوریت ہے، کیا کسی جماعت میں واقعی صحیح جمہوری طریقہ سے قائدین کا انتخاب ہوتا ہے؟ میرے علم میں واحد جماعت اس حوالے سے جماعت اسلامی ہی ہے جس کے امیر اور دیگر رہنمائوں کا انتخاب صحیح طور پر جمہوری طریقہ سے ہوتا ہے۔ 

جہاں تک منشور کا تعلق ہے ،سچی بات تو یہ ہے کہ عام لوگوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس جماعت کا کیا منشور ہے چنانچہ منشور کو ووٹ دینے کا تو سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ہمارے ہاں ووٹ شخصیات ، پارٹی نعروں، وعدوں اور دعوئوں کی بنیاد پر دیا جاتا ہے۔ بعض جگہوں پر ووٹ وڈیرہ، چوہدری اور جاگیردار کی منشا والے امیدوار کو دیا یا دلایا جاتا ہے۔ 

جہاں تک آزاد امیدوار کا تعلق ہے تو وہ منتخب ہونے کے بعد اپنے مفادات کو مدنظر رکھتا ہے اور اس جماعت میں شامل ہو جاتا ہے جہاں اس کو مفاد اور مقام نظر آتا ہے۔ ان تمام باتوں کا تعلق وطنِ عزیز سے ہے۔ واضح رہے کہ ان سوالات، حالات و واقعات کا مغربی نظام اور جمہوریت سے دور دور تک کا تعلق نہیں ہے۔جب جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہو تو منتخب نمائندوں سے جمہوریت کے مطابق نہ چلنے کا شکوہ چہ معنی دارد؟ کوئی اس کا بھی جائزہ لے کہ الیکشن کے دوران سیاستدان جتنے دعوے اور وعدے کرتے ہیں، ان میں سے کتنے فیصد پر عملدرآمد ہوتا ہے؟

 لیکن اس کے باوجود جب دوبارہ الیکشن کا ہنگامہ شروع ہو تا ہے تو وہی مخصوص لوگ پھر عوام کے پاس بلاجھجک جاتے ہیں۔ ووٹ مانگتے ہیں۔ وہی عوام ان کو پھولوں کے ہار پہناتے ہیں اور وہ نئے وعدے کرکے پھر ووٹ لینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ بس یہ گھن چکر ہے جو چلتا رہتا ہے۔ 

اور عوام کو یہی سبق پڑھایا جاتا ہے کہ جمہوریت بہترین نظام ہے اور بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے۔ عوام کو اب تک نہ جمہوریت کی سمجھ آئی نہ ہی وہ اس کے ثمرات سے لطف اندوز ہوئے اور نہ کبھی جمہوریت نظر آئی۔

جہاں تک موجودہ نظام سے قوم کے مطمئن ہونے کا سوال ہے تو بھلا ایسے نظام سے کوئی کیا اور کیسے مطمئن ہوسکتا ہے جس میں حصولِ انصاف مہنگا اور عام آدمی کے بس سے باہر ہو۔ جس میں غریب کے مسائل کے نام پر ان ہی غریبوں کے ووٹوں کا سودا کیا جاتا ہو۔ جس میں عام آدمی سرکاری دفتر میں اپنے کسی مسئلہ پر فریاد کرنے کے لئے گھس نہ سکتا ہو۔ 

جس نظام میں اکثر سرکاری افسر بشمول پولیس کے اکثر چھوٹے بڑے افسرعوام کو اپنی رعایا سمجھتے ہوئے ان سے ہتک آمیز رویہ رکھتے ہوں۔ جس نظام میں معصوم بچوں اور بچیوں کے ریپ اور قتل کرنے والوں کو سرِعام عبرتناک سزائیں نہ دی جاسکتی ہوں نہ خواتین کی عصمت دری کرنے والوں کو نشانِ عبرت بنانے کے لئے قانون سازی کی جاتی ہو اور جس نظام میں عہدے یا دولت کو ہی سب کچھ سمجھا جاتا ہو اور عہدے والا اور پیسے والا ’’حق پر‘‘ اور عام اور غریب و کمزور ’’ناحق‘‘ پر سمجھا جاتا ہو۔ بھلا ایسے نظام سے کون مطمئن ہوسکتا ہے۔ 

سوائے ان کے جن کے پاس عہدہ یا دولت ہے۔ہمیں ایک ایسے نظام کی ضرورت ہے جس میں حکومت مضبوط ہو۔ کوئی حکمران کو محض اس لئے بلیک میل نہ کرسکے کہ اگر وہ حکومت سے الگ ہو جائے اور حکومت کا ساتھ چھوڑ دے تو حکومت گر جائے گی۔ یعنی ایسا نظام جس میں حکومت بنانے کے لئے نہ کسی کی ضرورت ہو نہ اراکین پارلیمنٹ کی خریدو فروخت کی ضرورت ہو، جو ان کے لئے باعث شرم اور بدنامی ہو۔ ایسا نظام جس میں عام پاکستانی کو بھی انسان سمجھا جائے اور اس کو بنیادی انسانی حقوق مل سکیں۔ اس وقت ہمارے ہاں نہ حقیقی جمہوریت ہے نہ آمرانہ نظام ہے اور نہ ہی بادشاہت بلکہ یہ جمہوری نظام کی ایک بگڑی ہوئی شکل ہے۔

 اس کی مثال سوکھے درخت کی سی ہے۔ جس پر نہ پھل لگتے ہیں نہ سایہ ہے۔ جس دور کو آمرانہ بلکہ صاف الفاظ میں فوجی حکومت کہا جاتا ہے اس کی تاریخ کو اگر دیکھا جائے تو اس میں عام آدمی کو اس وقت کوئی تکلیف نہیں تھی۔ یہ نہ سمجھا جائے کہ میں جمہوری نظام کا مخالف ہوںلیکن صحیح اور حقیقی جمہوریت ہو تو سہی۔ موجودہ نظام نہ اسلامی ہے نہ مغربی جمہوریت ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یہاں جمہوریت کو مضبوط نہیں ہونے دیا گیا لیکن جب جب جمہوری دور آیا ہے اس میں عوام کو کیا ملا ہے؟ یہ واقعی بدترین جمہوریت ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، سیاستدان ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے اور ایک دوسرے کو بدنام کرتے ہیں۔ 

عوام کا پرسان حال کوئی نہیں۔ الزام کسی اور پر لگاتے ہیں۔ کیا اسی کو جمہوریت کہتے ہیں ، کیا ہمیں ایسا نظام چاہئے، کیا یہی نظام بہتر ہے؟ عام آدمی اپنے لئے آسانیاں اور عزتِ نفس چاہتا ہے۔ ایک مستحکم حکومت اورپرامن ماحول چاہتا ہے۔ معاشی ترقی اور ملکی خوشحالی چاہتا ہے۔ جو موجودہ نظام میں نہ نظر آتی ہے نہ اس کا امکان ہے۔ عام آدمی کو اس نام نہاد جمہوریت اور جمہوریت کے نام پر ڈھونگ، سیاسی افراتفری اور معاشی بدحالی سے نجات چاہئے۔ نظام صدارتی ہو یا کوئی اور اب شاید تبدیلی جلد آجائے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔