25 فروری ، 2021
پاکستانی معاشرہ تیزی سے بگاڑ کی طرف جا رہا ہے اور اس بگاڑ کو روکنے اور درست کرنے کی کسی کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ یقیناً بڑی تعداد میں لوگ اس صورتحال سے پریشان ہیں لیکن افسوس کہ بولتے کچھ نہیں۔
عمومی طور پر جس کسی سے بھی بات کریں وہ مانتا ہے کہ معاشرہ بہت بگڑ گیا ہے، ہماری اخلاقیات کا کوئی حال نہیں، کردار سازی اور مناسب تربیت نہ ہونے کی وجہ سے جس طرف دیکھیں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے۔ مغربی کلچر کی نقالی میں، ہمارے پاس جو بچا کھچا تھا، وہ بھی برباد ہو رہا ہے۔ شرم و حیا اور خاندانی نظام جو ہمارے معاشرے کے سب سے اہم ستون ہیں، اُنہیں گرانے کا کام تیزی سے جاری و ساری ہے۔
میڈیا اور سوشل میڈیا سے بہت شکایتیں ہیں لیکن کرنا کرانا کچھ نہیں۔ سب تماشائی بنے اپنی بربادی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سماجی و معاشرتی تنزلی کو روکنے کا سب سے اہم کردار سیاستدانوں کا ہونا چاہئے لیکن چند ایک کو چھوڑ کر باقیوں پر نظر دوڑائیں تو لگتا ہے اُن کو تو جیسے کوئی فکر ہی نہیں۔
بڑی سیاسی جماعتیں خاص طور پر مکمل سرد مہری کا رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے تو کوئی شکایت نہیں کیوں کہ وہ تو لبرل جماعت ہے اور جن چیلنجز کا ہمارے معاشرے کو سامنا ہے، وہ اُن کے لئے پریشان کن نہیں بلکہ الٹا ترقی اور ماڈرن ازم کے نام پر وہ مغرب کی نقالی میں لگے طبقہ کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔
ن لیگ کسی زمانہ میں ایک نظریاتی جماعت ہوا کرتی تھی اور اسلام اور اسلامی کلچر کے فروغ کی بات کرتی تھی لیکن اب تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی میں اس معاملہ میں کوئی زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ اسلامی نظریہ کے حامی ن لیگی یا تو پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں یا اُن کے لئے ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ وہ خاموش رہنے میں ہی اپنے سیاسی مستقبل کو محفوظ تصور کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف اپنے گزشتہ دورِ حکومت میں پاکستان کو لبرل اور پروگریسو ریاست بنانے کی باتیں کرتے رہے جس نے ن لیگ میں لبرل سوچ رکھنے والوں کومضبوط کیا جبکہ کئی نظریاتی ارکان بھی ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہو کر کافی حد تک لبرل ہو گئے اور پاکستان کی نظریاتی اساس تک پر سوال اُٹھانے لگے۔ جہاں تک پی ٹی آئی کا تعلق ہے اس کے نظریے کی کوئی سمجھ نہیں آتی۔
وزیراعظم عمران خان اسلام اور ریاستِ مدینہ کی بار بار بات کرتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ مغربی اور بھارتی کلچر اور اُن کی فلم اور شوبز انڈسٹری نے اُن معاشروں کو تباہی کے دہانے پر پہنچانے کے بعد پاکستانی معاشرے کو بھی بُری طرح سے متاثر کیا ہے۔
خان صاحب پاکستان کے میڈیا، فلم اور ڈرامہ انڈسٹری سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ مغرب اور بھارت کی نقالی کی بجائے اسلامی تاریخ اور اسلامی ہیروز پر فلمیں اور ڈرامے بنائیں لیکن خود اُن کے کئی وزراء مغربی اور بھارتی کلچر کے حامی ہیںاور کھلے عام اسلامی اصولوں کے خلاف بولتے ہیں۔
نہ اُن کی سرزنش ہوتی ہے، نہ ہی بےہودگی اور بےشرمی کے کاموں کو روکنے کے لئے کوئی عملی اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں۔
اس کے برعکس چند دن پہلے پاکستان کرکٹ بورڈ، جو ایک حکومتی ادارہ ہے، نے پی ایس ایل کی افتتاحی تقریب میں جو شو پیش کیا وہ بیہودگی اور بےشرمی کی مثال تھا اور اُس کلچر اور اُن اصولوں کے بالکل برعکس تھا جس کی عمران خان بار بار بات کرتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ حکمران تبلیغ کسی اور بات کی کرے لیکن اُس کی اپنی حکومت کا عمل اُس کے بالکل برعکس ہو۔
سیاسی جماعتوں پر نظر دوڑائی جائے تو اسلامی جماعتیں بھی اس معاشرتی بگاڑ کی درستی میں کوئی فعال کردار ادا نہیں کر رہیں۔ صرف جماعت اسلامی ہی ایک سیاسی جماعت ہے جو کچھ نہ کچھ کرتی نظر آتی ہے اگرچہ ماضی کے مقابلے میں جماعت اسلامی اتنی فعال نہیں لیکن اس کی خواتین بالخصوص ڈاکٹر سمیحہ راحیل قاضی معاشرے کے بگاڑ کو روکنے کے لئے اپنی آواز بلند کرتی رہتی ہیں۔
جنرل مشرف کے نام نہاد روشن خیالی کے دور سے ایک کوشش رہی کہ پاکستان میں مغربی کلچر کو فروغ دیا جائے اور اس سلسلے میں ویلنٹائن ڈے جیسی مغربی رسومات کو یہاں پھیلانے کی بہت کوشش ہوئی۔ کچھ برسوں تک تو اخبارات اور ٹی وی چینل ویلنٹائن ڈے کو پروموٹ کرنے میں آگے آگے رہے۔ دکانوں اور مارکیٹوں میں بھی سرخ پھول، غبارے اور ویلٹائن ڈے سے متعلق تحائف بکتے رہے۔
اس پر بھی سیاسی جماعتیں اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی رہیں۔ سیاسی جماعتوں کے کردار کو دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحبہ اور جماعت اسلامی کی خواتین نے ویلٹائین ڈے پر حیا ڈے منانے کا ایک سلسلہ شروع کیا اور معاشرے میں آگاہی پیدا کی کہ ویلنٹائن ڈے تو دراصل شرم و حیا کو ختم کرنے اور بےشرمی اور بےحیائی کو پروموٹ کرنے کا دن ہے جس کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اب گزشتہ کئی برسوں سے ویلنٹائن ڈے پاکستان میں خاموشی سے گزر جاتا ہے بلکہ اس دن حیا ڈے کی بازگشت زیادہ سنائی دیتی ہے جس کا کریڈت ڈاکٹر صاحبہ اور جماعت اسلامی کی دوسری خواتین کو جاتا ہے۔ اب ڈاکٹر صاحبہ اور جماعت کی دوسری خواتین ’’مضبوط خاندان، محفوظ عورت، مستحکم معاشرہ‘‘ کے سلوگن کے ساتھ ایک مہم چلا رہی ہیں جس کا مقصد مغربی اور بھارتی کلچر کی یلغار سے پاکستان کے خاندانی نظام کو بچانا اور عورت کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق اُس کے حقوق دلوانا ہے۔
ہمارے معاشرے میں خواتین سے جو زیادتیاں ہوتی ہیں اُنہیں روکنے کے ساتھ ساتھ آزادی اور حقوقِ نسواں کے نام پر پاکستانی عورت کو اُس استحصال اور ظلم سے محفوظ کیا جائے جس کا شکار مغرب کی عورت ہو چکی ہےاور جسے ترقی اور آزادی کے نام پر کھلونا بنا دیا گیا ہے۔
خاندانی نظام، شرم و حیا، عورت کا احترام یہ وہ معاملات ہیں جن کا تعلق صرف خواتین سے نہیں بلکہ ان کا تعلق معاشرے کے ہر فرد سے ہے۔ کتنا اچھا ہو کہ جو کام جماعت اسلامی کی خواتین کر رہی ہیں، اُس میں تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی رہنما اپنی اپنی آواز ملائیں تاکہ ویلنٹائن ڈے کی طرح بحیثیت قوم ہم اُس مغربی اور بھارتی کلچر کی یلغار کو ناکام بنا دیں جس کو Ignoreکرنا ہم سب کے لئے تباہ کن ہوگا۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔