08 مارچ ، 2021
گزشتہ روز قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینے کے بعد وزیراعظم عمران خان جب قوم کے کردار اور اخلاقیات کو بہتر بنانے پر زور دے رہے تھے اور یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے تھے کہ دنیا بھر میں ترقی پانے والی قوموں میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ اُن کا کردار اور اخلاق بہت اچھا ہوتا ہے، اُس سے تھوڑی دیر قبل ٹی وی چینلز کے ذریعے پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پارلیمنٹ کی عمارت کے باہر بداخلاقی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے تمام ریکارڈ توڑدیے۔
ن لیگ کے رہنما جب پارلیمان کی عمارت کے باہر پریس کانفرنس کر رہے تھے تو پی ٹی آئی کارکنوں کے ایک جھتے نے اُنہیں آ گھیرا، نعرے لگائے، غلیظ گالیاں دیں جس کے نتیجے میں وہاں نوبت ہاتھا پائی تک جا پہنچی۔ (ن) لیگ کے مرد رہنماؤں کے ساتھ ساتھ وہاں پارٹی کی ترجمان مریم اورنگزیب کے ساتھ بھی بدتمیزی کی گئی۔ گویا جو کچھ خان صاحب پارلیمنٹ کے اندر کہہ رہے تھے اُس سے یکسر برعکس اُنہی کے پارٹی کارکن ایک ایسا عمل کر رہے تھے جس کا کوئی دفاع نہیں کیا جا سکتا لیکن افسوس کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنما اس بدتمیزی اور بد تہذیبی کا دفاع ہی کرتے دکھائی دیے۔
حتیٰ کہ ڈاکٹر شیریں مزاری بھی سوشل میڈیا پر، جو کچھ مریم اورنگزیب کے ساتھ ہوا اُس کی مذمت کرنے سے کتراتی ہوئی نظر آئیں۔ وزیر انسانی حقوق نےالبتہ، جو بدتمیزی اُن کے کارکنوں نے کی، اُس کا دفاع کرتے ہوئے لاہور سے تعلق رکھنے والے ن لیگ کے ایک رہنما اور ایم این اے کی وڈیو سوشل میڈیا پر شیئر کر دی اور سوال اُٹھایا کہ ٹی وی چینل اُس کو کیوں نہیں دیکھا رہے؟
یقیناً جو گالیاں ن لیگی رہنما بک رہے تھے وہ قابلِ مذمت اور انتہائی غلیظ تھیں لیکن ایک غلط عمل کا جواب دوسرا غلط عمل کیسے ہو سکتا ہے؟ دوسری طرف ن لیگی رہنماؤں اور اُن کے سپورٹرز نے، جو بدتمیزی پی ٹی آئی کارکنوں نے کی، اُس کی تو خوب مذمت کی لیکن اُن کی طرف سے مسلم لیگ کے رہنما کی گالم گلوچ کی وڈیو پر کوئی بات نہیں کی گئی۔
مریم نواز صاحبہ نے بھی ایسا ہی کیا۔ بعد میں دونوں جماعتوں کے سوشل میڈیا فالورز نے جو طوفانِ بدتمیزی ایک دوسرے کے خلاف ٹوئٹر پر شروع کیا اُس نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔
ٹوئٹر پر’’یوتھیوں‘‘ اور ’’پٹواریوں‘‘ کے درمیاں گالم گلوچ اور غلاظت کا ایسا مقابلہ ہوا کہ ایک دوسرے کے رہنماؤں کو دی جانے والی گالیاں ٹوئٹر پر سب سے بڑے ٹرینڈ بن گئے۔ اس گندگی اور غلاظت کا مقابلہ تو نجانے ان دونوں میں سے کون جیتا لیکن اس سے ایک بات ثابت ہو گئی کہ ان سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماوں نے ایک ایسی نسل یہاں پیدا کر دی ہے جو اختلافِ رائے کا منطق اور دلیل کی بجائے گالیوں، بدتمیزی اور بدتہذیبی سے جواب دیتی ہے۔ اس رجحان کی شروعات میں یقیناً عمران خان اور ان کی پارٹی کا اہم کردار رہا لیکن افسوس کہ اب ن لیگ کی سوشل میڈیا ٹیم بھی اس بدتہذیبی میں آگے آگے ہے۔
ہمارے رہنما اپنی تقریروں میں اخلاقیات کا درس تو دیتے دکھائی دیتے ہیں لیکن عمل اُس کے بالکل برعکس کرتے ہیں جس کی وجہ سے سیاست میں گندگی اور غلاظت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، چاہے وہ گالیوں اور ہاتھا پائی کی بات ہو یا ایک دوسرے کے ارکین کی خریدو فروخت جس میں پیپلز پارٹی سب سے آگے آگے رہتی ہے۔ اگر پیپلز پارٹی سب سے زیادہ ووٹ خریدتی ہے تو بکنے والے سب سے زیادہ تحریک انصاف میں پائے جاتے ہیں۔
دونوں اپنے اپنے اعمال کو نہیں سدھاریں گے لیکن ایک دوسرے کو بُرا ضرور کہیں گے۔ ن لیگ کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس خرید و فروخت میں شامل نہ تھے لیکن یہ حقیقت ہے کہ مبینہ طور پر خریداری کرنے والوں کو نواز لیگ کی مکمل سپورٹ حاصل رہی اور سینیٹ الیکشن میں یوسفٖ رضا گیلانی کی جیت کی پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں نے مل کر خوشی منائی جبکہ سب کو معلوم تھا کہ حکومتی ووٹ خریدے گئے۔
عمران خان اس ہار پر اپنے پندرہ سولہ ارکانِ اسمبلی کے بکنے پر بہت سیخ پا تھے اور اُنہوں نے کہا کہ اُن ممبران نے اپنے ضمیر بیچے لیکن تین دن کے بعد اُنہی ضمیر فروشوں کو اس لئے معاف کر دیا کیونکہ اُن کے ووٹوں کے بغیر خان صاحب دو دن قبل قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ حاصل نہیں کر سکتے تھے۔ کردار اور اخلاقیات کا ہمارے معاشرے میں جنازہ نکل چکا، جو ہمارا سب سے بڑا المیہ ہے۔ اس میں سیاستدانوں کا کتنا بڑا کردار ہے وہ خود سوچیں لیکن ایک بات اٹل ہے کہ بحیثیت قوم ہم نے اگر زندہ رہنا ہے اور ترقی کرنی ہے تو معاشرے کے کردار اور اخلاقیات پر جنگی بنیادوں پر کام کرنا پڑے گا جس پر ریاست، حکومت، سیاست، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا کسی کی کوئی توجہ نہیں۔ افسوس!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔