سیز فائر

رات کا پچھلا پہر تھا۔ مسلم لیگ (ن) کے ایک سینیٹر کو ان کا ایک قریبی دوست بار بار فون کر رہا تھا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کر رہا تھا۔ سینیٹر صاحب مصروفیات کے بہانے بنا رہے تھے لیکن دونوں کے تعلقات کی نوعیت ایسی تھی کہ سینیٹر صاحب زیادہ دیر تک اپنے دوست کو بے وقوف نہ بنا سکے اور انہوں نے دوست کو اپنے گھر بلا لیا۔

اس دوست کا مسلم لیگ (ن) سے دور کا بھی واسطہ نہ تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ سینیٹر صاحب چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں اپوزیشن کے امیدوار یوسف رضا گیلانی کی بجائے حکومت اور ریاست کے مشترکہ امیدوار صادق سنجرانی کو ووٹ دیں گے۔

دوست نے سینیٹر صاحب سے کہا کہ آج تمام دن تمہاری پارٹی قیادت تم سے رابطے کی کوشش کرتی رہی لیکن تم نے سوائے ایاز صادق کے کسی کا فون نہیں سنا اور انہیں بھی کچھ شکوے شکایتیں سنا کر فارغ کر دیا۔

یہ اچھی بات نہیں کیونکہ تم اپنا سیاسی کیریئر ختم کرنے جا رہے ہو۔ سینیٹر صاحب نے اپنے چہرے پر بے بسی اور بیچارگی طاری کر کے کہا کہ میں کیا کروں؟ پھر بولے صادق سنجرانی سے میری دوستی بہت گہری ہے میں اُس کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتا۔ دوست نے کہا کہ تمہیں صادق سنجرانی نے نہیں مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر بنایا اگر تم دوست کے خلاف ووٹ نہیں دے سکتے تو نہ دو لیکن اپنے آپ کو بدنام تو نہ کرو۔

سینیٹر صاحب کا لہجہ کچھ سخت ہو گیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے مسلم لیگ (ن) نے سینیٹر نہیں بنایا میں تو اپنی کوشش سے سینیٹر بنا ہوں۔ دونوں دوستوں کے مذاکرات ناکام ہو گئے۔ اب یہ کوئی راز نہیں رہا کہ خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے یہ سینیٹر صاحب صادق سنجرانی کو ووٹ ڈالیں گے۔

دوسری طرف حکومت کی طرف سے تحریک انصاف اور اس کی اتحادی جماعتوں کے سینیٹرز کی بھی سخت نگرانی کی جا رہی ہے۔ سینیٹ الیکشن میں وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد سے تو کچھ وزراء صاحبان ایک دوسرے پر بھی شک کرنے لگے ہیں کہ پتہ نہیں کتنے وزیروں نے ’’نظریاتی اختلاف‘‘ کے باعث حفیظ شیخ کے خلاف ووٹ ڈال دیا۔ حفیظ شیخ کی شکست کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپوزیشن پر ہارس ٹریڈنگ کا الزام لگایا تھا۔

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں عمران خان کے امیدوار صادق سنجرانی پر وہی الزامات لگائے جا رہے ہیں جو چند دن پہلے یوسف رضا گیلانی پر لگائے جا رہے تھے۔ وزیر دفاع پرویز خٹک نے نو مارچ کو میڈیا کے سامنے دعویٰ کیا کہ انہوں نے مولانا عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے عہدے کی پیشکش کی۔

اسی دن بلوچستان سے مشہور زمانہ آزاد سینیٹر عبدالقادر نے تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کر کے حکومت اور اپوزیشن میں ہر قسم کا فرق مٹا دیا۔ عبدالقادر کی تحریک انصاف میں شمولیت کے چند گھنٹوں بعد خیبر پختونخوا سے منتخب ہونے والے آزاد سینیٹر شمیم آفریدی نے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔ شمیم آفریدی اور عبدالقادر کیسے سینیٹر بنے؟ اس سوال کا جواب بتانے کی ضرورت نہیں۔

ان دنوں مجھ جیسا گناہ گار انسان جب بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے وزیراعظم کی تقریروں میں قرآن و حدیث کا ذکر سنتا ہے تو نظروں کے سامنے عبدالقادر اور سیف ﷲ ابڑو کے چہرے گھومنے لگتے ہیں۔ آئندہ جب بھی بلاول بھٹو زرداری غریبوں کی بات کیا کریں گے تو میں شمیم آفریدی زندہ باد کے نعرے لگایا کروں گا۔

عمران خان ہمیشہ دعویٰ کیا کرتے تھے کہ وہ کرپٹ لوگوں کو این آر او نہیں دیں گے۔ کیا انہوں نے جمعیت علمائے اسلام کو ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی پیشکش کر کے اپوزیشن کو این آر او دینے کی کوشش نہیں کی؟ مسلم لیگ (ن) کے کچھ سینیٹر صاحبان کے ووٹ توڑ کر ہو سکتا ہے عمران خان یوسف رضا گیلانی سے اپنا حساب برابر کر لیں لیکن وہ اپنے ہی حامیوں کی نظروں میں گر بھی سکتے ہیں۔

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے لئے اسلام آباد میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے اسے دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے ارکان کی وفاداریاں بھی خرید رہے ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف نفرت بھری بیان بازی بھی کر  رہے ہیں۔

سینیٹ کے الیکشن میں یوسف رضا گیلانی اقلیت کے امیدوار تھے لیکن انہوں نے اکثریت کے امیدوار کو شکست دی۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں گیلانی صاحب اکثریت کے امیدوار ہیں لیکن اقلیت کا امیدوار اُن کے برابر پہنچ چکا ہے۔ نمبرز گیم کے مطابق سینیٹ میں حکومت کے 47 اور اپوزیشن کے 53 ارکان ہیں۔ اسحٰق ڈار ووٹ ڈالنے نہیں آئیں گے۔

جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد خان فی الحال اپوزیشن کو ووٹ نہیں دے رہے یوں اپوزیشن کے ارکان 51رہ گئے۔ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اے این پی بلوچستان اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے ووٹ اُسے ملیں گے۔ اگر حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ درست ہے تو اُس کے ووٹ 50ہو جائیں گے۔

اے این پی کی قیادت نے پیپلز پارٹی کو یقین دلایا ہے کہ اے این پی بلوچستان کے نو منتخب سینیٹرز کا ووٹ گیلانی صاحب کو ملے گا اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی نے بھی حکومتی دعوئوں کی تردید کی ہے لیکن اگر سنجرانی صاحب اپنی قاتل مسکراہٹ سے مسلم لیگ (ن) کے دو تین ووٹ توڑنے میں کامیاب ہو گئے تو اپوزیشن کی اکثریت دھری کی دھری رہ جائے گی۔

اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف کی پاکستان میں عدم موجودگی اور شہباز شریف کے جیل میں ہونے کی وجہ سے حکومت اور ریاست کے لئے مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز پر دباؤ ڈالنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا الیکشن کوئی بھی جیتے اس الیکشن کے نتائج سے پاکستان کے عام آدمی کی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لیکن جو ہار جائیں اُنہیں آئندہ سینیٹ کے ٹکٹ بانٹتے ہوئے یہ ضرور سوچنا چاہئے کہ مشکل وقت میں یہ سینیٹر صاحبان اپنی پارٹی کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا نہیں؟

چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے بعد 23؍ مارچ کو یوم پاکستان آئے گا۔ یوم پاکستان پر ایک قوم اور ایک منزل کے نعرے لگیں گے لیکن 26مارچ کو پی ڈی ایم کا لانگ مارچ شروع ہو جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے ایک دوسرے پر کرپشن اور غداری کے الزامات لگتے رہیں گے۔

نفرتوں کی سیاست بڑھتی رہے گی۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تک ہمارے وزیراعظم صاحب بھارتی وزیراعظم کو ہٹلر قرار دیا کرتے تھے۔ اس ہٹلر کے بارے میں اُن کا لہجہ نرم پڑ چکا ہے اور بھارت کے ساتھ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا ایک معاہدہ بھی ہو چکا ہے۔

عمران خان نے ہٹلر کی فوج کے ساتھ سیز فائر کر لیا ہے لیکن وہ اپنے ملک کی اپوزیشن کے ساتھ سیز فائر کرنے کے لئے تیار نہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہٹلر نے سوچا ہو کہ مجھے پاکستان سے لڑنے کی کیا ضرورت ہے کیونکہ پاکستانی تو آپس میں مرنے مارنے پر تیار بیٹھے ہیں لہٰذا ان کے ساتھ سیز فائر کر لو تاکہ یہ بیرونی خطرے سے آزاد ہو کر ایک دوسرے کے لئے خطرہ بن جائیں؟ دشمن کے ساتھ سیز فائر ہو سکتا ہے تو آپس میں کیوں نہیں؟

مزید خبریں :