پاکستان
Time 08 اپریل ، 2021

این اے 75: ڈسکہ میں کس پارٹی کا پلڑہ کس دور میں بھاری رہا؟

ڈسکہ ایک صنعتی علاقہ ہے اور کھیلوں کے سامان، لیدر گارمنٹس، سرجیکل آلات، پنکھوں، آٹو پارٹس، زرعی آلات اور واشنگ مشینز کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے جب کہ اعلیٰ معیار کے چاول بھی اس علاقے کی پہچان ہیں۔

مگر حالیہ دنوں میں اس کی وجہ شہرت، فروری میں این اے 75 سیالکوٹ 4 میں ہونے والے بائی الیکشن میں نتائج سمیت دھند میں غائب ہونے والے پریذائیڈنگ آفیسر ز بنے۔اس واقعہ کے نتیجہ میں حلقہ پورے پاکستان میں سیاسی توجہ کا مرکز بن گیا۔ الیکشن کمیشن نے انتخاب کروانے کا فیصلہ کیا جسے عدالت میں چیلنج کیا گیا۔ مگر بالآخر عدالت اعظمیٰ نے الیکشن کمیشن کے حق میں فیصلہ دیا اور اب دس اپریل کو یہاں ری پولنگ ہونے جا رہی ہے۔

اس حلقہ کی سیاسی تاریخ پر مختصر نظر ڈالنے کا اچھا موقع ہے۔

یہ حلقہ ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے بیشتر اور تحصیل پسرور کے 6پٹوار سرکلز پر مشتمل ہے۔

1970 اور77 میں سیالکوٹ کی باقی نشستوں کی طرح اس علاقے سے بھی پیپلز پارٹی ہی کو کامیابی ملی۔ پیپلز پارٹی کا ووٹ بینک اس حلقے میں 1988میں بھی برقرار رہا اور انہی کے امیدوار خورشید عالم نے 41% ووٹوں کے ساتھ کامیابی حاصل کی۔ مگر اس کے بعدسے پارٹی کا ووٹ بینک مسلسل کم ہوتا گیا اور 2018 میں پارٹی حلقہ سے محض 1.6 فیصد ووٹ حاصل کر پائی۔

1988 سے 1997 تک یہ حلقہ این اے 87 جبکہ 2002 سے 2013 تک این اے 113 کہلاتا تھا۔ 1990 سے اس نشست پر مسلم لیگ کی حکمرانی ہے۔

1990میں آئی جے آئی کے نذیر احمد خان جبکہ 93اور 97میں مسلم لیگ ن کے سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔مسلم لیگ ن اور ق کی علیحدگی کے بعد 2002 میں مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر علی اسجد ملہی نے کامیابی حاصل کی۔مسلم لیگ ق کی ن پر حلقہ میں برتری کی ایک وجہ سید افتخار الحسن کا ڈگری کی وجہ سے انتخاب نہ لڑنا بھی تھا۔ مگر 2008، 2013 اور 2018 میں یہ نشست مسلم لیگ ن کے پاس ہی رہی۔ 2008 میں موجودہ امیدوار نوشین افتخار کے شوہر سید مرتضیٰ امین، جبکہ 2013 اور 2018 میں سید افتخار الحسن کامیاب ہوئے۔

سید افتخار الحسن کا تعلق ایک مذہبی گھرانہ سے تھا۔ آپ کے والد سید فیض الحسن شاہ، جمعیت علمائے پاکستان کے صدر رہے اور تحریک ختم نبوت کا بھی حصہ تھے۔

1988 سے ہونے والے انتخابات میں مسلم لیگ ن کو ملنے والے ووٹوں کی شرح 40 سے 58 فیصد کے درمیان رہی ہے۔ جبکہ تحریک انصاف نے گذشتہ دو انتخابات میں ہی حصہ لیااور بالترتیب 26 اور 24 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

نوشین افتکار اور علی اسجد ملہی— فائل فوٹو

2018 کے انتخابات میں اس نشست پر تحریک انصاف کو کامیابی کی کافی امید تھی مگر تحریک انصاف کے عثمان عابد، جو کہ علاقے کی معروف سماجی شخصیت کے بیٹے ہیں، نے ٹکٹ کی درخواست دی جو مسترد کر کے ٹکٹ علی اسجد ملہی کو دے دیا گیا۔ 

علی اسجد ملہی 2014 میں ق لیگ چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ عثمان عابد نے آزاد حیثیت میں انتخاب لڑا اور 57000 سے زائد ووٹ حاصل کیئے۔ جبکہ اسجد ملہی نے 61727 ووٹ حاصل کیئے۔ جیتنے والے سید افتخار الحسن نے 101769 ووٹ حاصل کیئے تھے۔ اس طرح اگر تحریک انصاف کی طاقت دو گروپس میں تقسیم نہ ہوتی، تو سید افتخار الحسن کی شکست کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔

2018 کے انتخاب میں حلقے میں شامل ہونے والا نیا فیکٹر تحریک لبیک پاکستان کا تھا، جس نے 14801 ووٹ حاصل کیئے۔ جبکہ اس سے پہلے 2013 کے انتخاب میں حلقے میں دو مذہبی جماعتیں، جماعت اسلامی اور جے یو آئی ایف نورانی گروپ مل کرمحض 1019 ووٹ ہی حاصل کر پائی تھیں۔

آٹھ لاکھ 23ہزار سے زائد کی آبادی پر مشتمل این اے 75 سیالکوٹ میں گذشتہ تین انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی شرح 55 فیصد سے زائد رہی ہے۔

دس اپریل کو ہونے والے انتخاب میں مسلم لیگ ن کی نوشین افتخار، تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی اور تحریک لبیک کے خلیل سندھو نمایاں امیدوار ہیں۔ 

مزید خبریں :