Time 29 اپریل ، 2021
بلاگ

’’ہمیں آپ پر فخر ہے‘‘

لکھنا تو وزیراعظم کے اس قولِ زریں پر کہ ’’اپنی کارکردگی پر فخر ہے‘‘ مگر اس سے پہلے چند موضوعات بھی چکھتے جائیں، جسٹس فائز عیسیٰ نظر ثانی اپیل کا فیصلہ آگیا، جج صاحب کی اہلیہ کے خلاف کیس ختم، 19جون اور 23اکتوبر 2020کے فیصلوں پر ایف بی آر کی تحقیقات، رپورٹ، اقدامات غیر قانونی قرار، جج صاحب کی اہلیہ سرینا عیسیٰ کی درخواست چھ چار سے منظور، جسٹس فائز، اہلیہ، بچوں کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل سمیت کسی فورم پر کارروائی نہیں ہو سکتی، جسٹس منظور اور جسٹس مظہر نے اپنے فیصلے سے رجوع کر لیا۔

 مطلب پہلے دونوں جج صاحبان جسٹس فائز عیسیٰ کے حوالے سے ایف بی آر تحقیقات کے حق میں تھے، اب خلاف، جسٹس فائز عیسیٰ کی انفرادی درخواست 5ججز نے منظور، 5نے مسترد کردی، یہ کیس جس طرح چلا، جوریمارکس آئے، جسٹس فائز عیسیٰ کا جومؤقف رہا، وہ سب کے سامنے، کئی بار ڈسکس ہوچکا، جہاں تک فیصلے کی بات، اتنا ہی کہنا، سپریم کورٹ کا سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل کو جج صاحب کیخلاف تحقیقات کرنے سے روک دینا، نظر ثانی اپیل میں دو جج صاحبان کا اپنے پہلے فیصلے کیخلاف فیصلہ دیدینا، اور کیا اب آئندہ کسی جج صاحب سے ایف بی آر یا کوئی ادارہ پوچھ گچھ کر سکے گا؟

دوسرا موضوع،سابق ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نیا پنڈورا بکس کھول چکے، ان کا کہنا، وزیراعظم نے مجھے شہباز شریف کو گرفتار کرنے کا کہا، جب میں نے انکار کر دیا تو کچھ عرصہ بعد نیب نے شہباز شریف کو گرفتار کر لیا، اس گرفتاری کے بعد ایک دن وزیراعظم نے مجھے کہا’’ آپ نے تو کچھ نہیں کیا، میں نے ایک کال کی نیب کو اور شہباز شریف گرفتار ہوگئے، اسے کہتے ہیں وفاداری‘‘، بشیر میمن جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری، کیس کی کہانی بھی سنا چکے کہ کیسے وزیراعظم نے انہیں بلا کر یہ حکم دیا، کس طرح وزیراعظم دفتر سے نکل کروہ شہزاد اکبر کے دفتر میں گئے، کیسے شہزاد اکبر، اعظم خان کے ساتھ فروغ نسیم کے دفتر گئے، کیسے سب نے انہیں کہا کہ ایف آئی اے جسٹس فائز عیسیٰ کیخلاف انکوائری کرے، کیسے انہوں نے انکار کردیا اور اس انکار کے بعد کیا ہوا، اب شہباز شریف گرفتاری اور جسٹس فائز عیسیٰ انکوائری کہانی، یہ سچ یا جھوٹ، بشیر میمن کتنا سچ بول رہے، اس کی انکوائری ہونی چاہیے، منصفانہ اور شفاف انکوائر ی تا کہ سچ، جھوٹ سامنے آسکے اور دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہوسکے۔

تیسرا موضوع، جہانگیر ترین کے حامی وزیراعظم سے ملکر فتح کے شادیانے بجا رہے، کیا جہانگیر ترین کو این آر او مل چکا، کیا جہانگیر ترین کو این آر او مل جائے گا، جہانگیرترین کے 40 حامی جو وزیراعظم سے ملے، ان کا تو کہنا ہم شہزاد اکبر کو جہانگیر ترین کیس سے ہٹوا چکے، ہم ایف آئی اے شوگر انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کو عہدے سے ہٹوا چکے، ہم سینیٹر علی ظفر کو جہانگیر ترین معاملہ دیکھنے کی ذمہ داری دلوا چکے۔

شہزاد اکبر کا تو پتا نہیں کہ انہوں نے جہانگیر ترین کیس چھوڑا یا نہیں، انہیں وزیراعظم نے جہانگیر ترین کیس سے علیحدہ کیا یا نہیں، ہاں البتہ ایف آئی اے شوگر انکوائری کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر رضوان کو انکوائری کمیٹی کی سربراہی سے ہٹادیا گیا، ابھی تک انہیں ہٹانے کی وجہ جو سامنے آئی اس میں پہلی، وہ 4حکومتی ارکان کی شوگر ملوں کیخلاف ایف آئی آر دینا چاہتے تھے اور دوسری وجہ ان پر دباؤ تھا کہ جہانگیرترین کیخلاف ایف آئی آر پر نظر ثانی کریں۔

انہوں نے جب دونوں باتیں ماننے سے انکار کردیا تو انہیں ہٹا دیا گیا، یہاں یہ کہنا، کاش جہانگیر ترین کے حامی جہانگیر ترین سپریم کورٹ نااہلی فیصلہ پڑھ لیتے، ایس سی پی کی انسائیڈرٹریڈنگ پر ججمنٹ پڑھ لیتے اور اک نظر جہانگیر ترین کے مبینہ فراڈ، مبینہ منی لانڈرنگ اور مبینہ شوگر گھپلوں پر مارلیتے، سب کو ٹھنڈ پڑجاتی، یہاں عمران خان سے بھی کہنا، کپتان جی، جہانگیر ترین معاملے پر نو این آر او، نویوٹرن، کپتان جی، یہ آپ نے ہی کہا تھا کہ ’’ میرا آپ سے وعدہ ہے کہ حکومت چھوڑیں، میری جان بھی چلی جائے، میں چوروں، ڈاکوؤں کو نہیں چھوڑوں گا‘‘،کپتان جی، یہ بھی آپ نے ہی کہا تھا کہ’’ میں نے ﷲ سے وعدہ کیا ہوا ہے کہ ﷲ مجھے ایک موقع دینا میں کسی بھی اپنے ملک کو لوٹنے والے کو نہیں چھوڑوں گا‘‘، کپتان جی اب اپنی باتوں پر کھڑے رہنا اور جہانگیر ترین کو نو این آر او۔

اب آجائیے عمران خان کے قولِ زریں پر کہ اپنی کارکردگی پر فخر ہے، اڑھائی سال بعد وزیراعظم کا یہ فرمانا، اپنی کارکردگی پر فخر ہے، اب بلاشبہ عمران خان کو ملک برے حالات میں ملا، بلاشبہ بہت مسائل، مصائب، بلاشبہ اڑھائی سال میں کوئی انقلاب نہیں آجانا تھا مگر 5سال میں سے اڑھائی سال سے زیادہ وقت گزرگیا، یو ں سمجھ لیں حکومت کا آدھا وقت گزر گیا، اب ہم دیکھتے ہیں کہ کیا عمران خان اپنا کام کرچکے، اور انہیں کس کارکردگی پر فخر ہے، ہوم ورک رہنے دیں، 22سالہ اپوزیشن کے بعد عمران خان اقتدار میں آئے تو ہوم ورک صفر تھا، اسے رہنے دیں۔

رائٹ پیپل فار رائٹ جاب بھی رہنے دیں، عمران خان یہ بھی نہ کر سکے، عمران خان کو اپنی کارکردگی پر فخر ہے، کیا انہیں اپنے یوٹرنوں پر فخر ہے، کیا بیڈ گورننس، بیڈ پرفارمنس پر فخر ہے، کیا مسلسل بڑھتی مہنگائی پر فخر ہے، کیا زیادہ ہوتی بے روزگاری پر فخر ہے، کیا مسلسل ترقی کرتی غربت پر فخر ہے، کیا ملکی منفی گروتھ ریٹ پر فخر ہے، کیا زراعت، انڈسٹری سمیت 16میں سے 12شعبوں کی بدحالی پر فخرہے، کیا پولیس، پٹوار ریفارمز نہ کرنے پر فخر ہے، کیا آئی ایم ایف کے پاس جانے پر فخر ہے، کیا قرضوں پر قرضے لینے پر فخرہے، کیا 90دنوں میں کرپشن ختم نہ کرنے پر فخر ہے، کیا ایک کروڑ نوکریاں نہ دینے پر فخر ہے، کیا 50لاکھ گھر نہ بنا نے پر فخر ہے، کیا نیا صوبہ نہ بنانے پر فخر ہے۔

کیا مفت تعلیم، مفت صحت کی سہولیات نہ دینے پر فخر ہے، کیا ایم کیو ایم، جے ڈی اے، ق لیگ، آزاد ممبران اور الیکٹیبلز سے اتحاد کرنے پر فخر ہے، کیا انرجی سیکٹر، آٹا،گندم اور چینی پر غلط بریفنگز، غلط فیصلوں پر فخرہے، کیا بھانت بھانت کے پروٹوکول لینے پر فخرہے، کیا20وزیروں، مشیروں کی بجائے 50وزیر، مشیر رکھنے پر فخر ہے، کیا وزیراعظم ہاؤس، ایوان صدر، گورنر ہاؤسسز نہ گرانے اور یونیورسٹی نہ بنانے پر فخرہے، کیا 2سو ارب ڈالر باہر سے نہ لانے پر فخر ہے، کیا 8ہزارارب ٹیکس اکٹھانہ کرنے پر فخر ہے،کیا آئے روز وزیروں، مشیروں، بیوروکریٹوں کو تبدیل کرنے پر فخر ہے، کیا اڑھائی کروڑ بچوں کو اسکول نہ بھجوا سکنے پر فخر ہے، کیا کراچی پیکیج ٹھس ہوجانے پر فخر ہے، اگر تو قائد محترم آپ کو اس کارکردگی پر فخرہے تو ہمیں آپ پر فخر ہے ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔