سیاست کا ’بارہواں کھلاڑی‘

بارہواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے، کھیل ہوتا رہتا ہے، شور مچتا رہتا ہے، داد پڑتی رہتی ہے اور وہ سب سےالگ انتظار کرتا ہے ایک ایسی ساعت کا، ایک ایسے لمحے کا جس میں سانحہ ہو جائے، پھر وہ کھیلنے نکلے تالیوں کے جھرمٹ میں، ایک جملہ خوش کن ایک نعرہ تحسین، اس کے نام پر ہو جائے۔

پتا نہیں کیوں مگر مجھے اکثر میاں شہباز شریف کو دیکھ کر افتخار عارف صاحب کی یہ نظم ’’12واں کھلاڑی‘‘ یاد آجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ خیال ایک زمانے میں پی پی پی کے مخدوم امین فہیم مرحوم کو دیکھ کر آتا تھا۔شہباز صاحب کی سیاست میں یہ اتار چڑھائو بہت عرصہ سے دیکھ رہا ہوں۔ ہر بار وہ اپنی ٹیم بناناچاہتے ہیں، ایک بار تو حکومت بنانے سے پہلے کابینہ تک بنالی تھی مگر پھر ان کے ساتھ ’سیاسی حادثہ‘ہو جاتا ہے اور ان کی پوزیشن 12ویں کھلاڑی کی مانند نظر آتی ہے۔

کبھی وہ پورے اعتماد کے ساتھ ملک واپس آتے ہیں کہ مفاہمت ہو گئی مگر جیل جانا پڑ جاتا ہے۔ ایسی ہی امید لئے وہ کچھ عرصے پہلے اپنے گھر سے لندن جانے کے لئے روانہ ہوئے۔ پورے دن اچھی خبریں آرہی تھیں۔ لاہور ہائیکورٹ نے جانے کی اجازت دی تو روانگی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔ جانے کا ٹکٹ بھی کنفرم تھا اور واپسی کا بھی۔ 

جانے سے پہلے انہوں نے اپنے قابل اعتماد ساتھیوں کو اعتماد میں لیا ضروری ہدایت جاری کیں مگر انہیں کیا پتا تھا کہ ’بلیک لسٹ‘ کے علاوہ وزیراعظم عمران خان کی ایک ’واچ لسٹ‘ بھی ہے۔ خان صاحب ملک سے باہر تھے۔ کورٹ کا فیصلہ آیا تو فوری طور پر ان کو اطلاع دی گئی کہ ’دوسرا بھی جا رہا ہے۔‘ جواب آیا۔ ’Not at all‘۔

وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے حال ہی میں کراچی میں ایک ملاقات میں انکشاف کیا کہ شہباز کو بھیجنے کے فیصلے سے وزیراعظم عمران خان ان لوگوں سے سخت نالاں تھے جو شہباز کو مبینہ طور پر بھیجنا چاہتے تھے۔ ’’جس پھرتی سے باہر بھیجنے کا کام ہوا اس سے عمران سخت ناراض ہوا۔‘‘ شیخ صاحب نے واضح پیغام دیا کہ اب شہباز، مریم کا جانا مشکل ہے۔شہباز شریف جو مفاہمتی فارمولا لے کر بھائی جان کے پاس جانا چاہ رہے تھے وہ یہیں رہ گیا اور وہ لندن کے بجائے اسلام آباد آگئے۔ 

اس بار وہ جیل سے باہر آئے تو زیادہ پراعتماد تھے۔ غیر ملکی سفیروں سے ملاقاتیں بھی شروع کر دیں۔ انہیں لگا کہ شاید معاملات ٹھیک ہو رہے ہیں مگر ہائیکورٹ سے ایئرپورٹ تک بازی پلٹ گئی اور سیاست کے 12ویں کھلاڑی پھر کسی ایک کا انتظار کرنے بیٹھ گئے۔ 2018 کے الیکشن سے پہلے بڑے بھائی سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نااہل ہوئے اور سزا یافتہ بھی۔ بیٹی مریم کے سر پر بھی نااہلی کی تلوار لٹک گئی۔ بھائی اور چچا سمجھے کہ شاید اب بات بن جائے۔ بھائی سے ملے تو انہوں نے ان کو نامزد کرنے کے بجائے سوال اٹھا دیا کہ ’مجھے کیوں نکالا‘۔ شہباز کو پھر انتظار کرنا پڑا۔

شہباز کی سیاست بھی کمال کی سیاست ہے کبھی بس مس ہوجاتی ہے کبھی فلائٹ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بھی ہائی جیکنگ کیس میں سزا (عمر قید) بڑے بھائی کو ہوئی اور شہباز بری ہوگئے۔ 10سال کی ڈیل ہوئی تو شہباز کے نہ جانے کے اصرار کے باوجود انہیں بھی سعودی عرب جانا پڑا۔ لگتا یہی ہے کہ کچھ قوتیں شہباز کو باہر بھیجنے کے حق میں تھیں مگر جو لوگ ’کپتان‘ کو کرکٹ کے زمانے سے جانتے ہیں انہیں پتا ہے کہ وہ تو سلیکٹرز کی بنائی ہوئی ٹیم بدل دیتا تھا، اگر اسے پسند نہ آئے۔ 

لگتا ہے یہاں کپتان نے، نواز شریف کو جس انداز میں بھیجا گیا اس کا غصہ چھوٹے بھائی پر اتار دیا۔ ایسا لگتا ہے اس بار ’شریفوں اور سلیکٹرز‘ کے بیچ رکاوٹ خود عمران خان ہے۔ اب شہباز صاحب کے پاس آپشن ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس وقت شہباز شریف سمیت بڑی جماعتوں کے سربراہ کم و بیش 70سال کے لگ بھگ ہیں اس لئے 2023 کا الیکشن ان میں سے بیشتر کا یہ آخری الیکشن ہوگا۔ لہٰذا اگر اس بار شہباز صاحب کابس نہ چل سکا تو وہ بحیثیت 12ویں کھلاڑی ہی ریٹائر ہو جائیں گے۔

حال ہی میں شہباز صاحب کو ایک قریبی ساتھی نے مشورہ دیا کہ بڑے میاں صاحب کو بتائیں کہ ’نئی غلطیاں ضرور کریں پرانی نہ دہرائیں۔‘ 1993 میں سپریم کورٹ کے فل بنچ نے ان کی حکومت کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے بحال کیا مگر صدر غلام اسحاق خان نے فیصلہ ماننے سے انکار کر دیا۔ میاں صاحب نے ’ڈکٹیشن نہ لینے‘ کی ولولہ انگیز تقریر کے بعد ’ڈکٹیشن‘ لیا اور صدر اسحاق خان کے ساتھ استعفیٰ دیدیا جسے بعد میں کاکڑ فارمولے کا نام دیا گیا۔ ایسا ہی کچھ جنرل مشرف کے دور میں ہوا۔ ایک سال دونوں بھائیوں نے جیل کاٹی۔ بیگم کلثوم نواز مرحومہ نے تحریک کا آغاز کیا اور بہت سے پارٹی لیڈروں کو تھوڑی شرم بھی دلائی اور جب تحریک زور پکڑنے لگی تو وہ ایک ایسی ڈیل کر بیٹھے جس میں 10سال سیاست نہ کرنے کا وعدہ شامل تھا۔ شہباز باہر جانے کو تیار نہیں تھے مگر انہیں زبردستی جہاز میں بھائی کی برابر والی سیٹ پر بٹھا دیا گیا۔

اس بار بھی میاں صاحب باہر ہیں اور شہباز ’اندر۔ باہر۔‘ اب وہ پارلیمانی سیاست تک محدود ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کا یہ حال ہے کہ وہ خود ہی لڑ رہی ہیں، دست و گریباں ہیں کپتان سے کیا لڑیں گی۔ پچھلے پورے تین سال میں ایک بار بھی حکومت کو اپوزیشن سے کوئی بڑا خطرہ لاحق نہیں ہوا۔ حکومت کو جو بھی خطرہ ہے وہ ’اپنوں‘ سے ہی ہے۔ کبھی میں تفصیل سے لکھوں گا میاں نواز شریف کی سیاست کاریوں پر۔ 

ایک بڑی پارٹی کھڑی کرکے خود ہی بیٹھ جاتے ہیں۔ لیڈر فرنٹ سے لیڈ کرتا ہے۔ اب دیکھیں میاں صاحب اور بیٹی مریم نواز کی اپیلوں کا کیا فیصلہ آتا ہے۔ اگر یہ مسترد ہو گئیں تو تب بھی میاں شہباز میاں 12 ویں کھلاڑی ہی رہیں گے اور منظور ہوگئیں تب بھی الیکشن جیتنے کی صورت میں عثمان بزدار کی جگہ لے سکتے ہیں۔ جب موقع ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی شاہد خاقان آجاتا ہے۔ بدقسمتی سے مخدوم امین کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا تھا۔ جب پورا یقین تھا کہ وزیراعظم بن جائیں گے تو یوسف رضا گیلانی آگئے وہ بھی سیاست کے 12ویں کھلاڑی ہی رہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔