یوٹرن والا بجٹ!

پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے مالی سال 2021-22 کے لیے اپنے تیسرے بجٹ میں جو خوش آئند اعلانات کئے ہیں، کیا وہ پورے ہو سکیں گے ؟ اس کےلئے پیسے کہاں سے آئیں گے ؟ کیا پی ٹی آئی کی حکومت کے گزشتہ دو بجٹ میں کئے گئے مشکل اور غیر مقبول فیصلوں سے اتنے وسائل جمع ہو گئے ہیں کہ حکومت نے یوٹرن لے لیا ہے اور بجٹ میں آسان، مقبول، سیاسی اور عوام کو ریلیف دینے والے فیصلے کئے گئے ہیں ؟

پہلی بات تو یہ ہے کہ وزیر خزانہ شوکت ترین نےاپنا حالیہ منصب سنبھالتے ہی جو بیان دیا تھا، اسے سامنے رکھا جائے تو مذکورہ بالا سوالوں کا جواب نفی میں ملتا ہے۔ انہوں نے بین السطور یہ واضح کر دیا تھا کہ گزشتہ دو بجٹوں میں پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر جو ’’ سخت ‘ ‘ پالیسیاں اختیار کی تھیں، وہ معاشی تباہی کا سبب بنیں۔

 انہوں نے معیشت کی بحالی کے لئے ان پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ بجٹ برائے مالی سال 2021-22 شوکت ترین کے پہلے بیان کے مطابق ہے۔ یہ گزشتہ دو بجٹوں خاص طور پر سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے بجٹ کا مکمل ’’ یوٹرن ‘‘ ہے۔

 بعد میں اگرچہ شوکت ترین نے اپنے پہلے بیان کے کئی عذر پیش کئے اور نیا حکومتی بیانیہ اختیار کیا لیکن آئندہ مالی سال کا بجٹ گزشتہ دو سالوں کے بجٹس کا یوٹرن ہے، جس میں غیر مشکل، مقبول اور سیاسی فیصلےکئے گئے ہیں۔ 

اس سے ایک تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ گزشتہ دو برسوں کے مشکل فیصلوں کے بعد اتنے مالیاتی وسائل پیدا نہیں ہوئے کہ آئندہ خوش حالی والا بجٹ لایا جا سکے۔ دوسری بات یہ ثابت ہوتی ہے کہ حکومت کی نہیں بلکہ ہر وزیر خزانہ کی اپنی پالیسی ہوتی ہے۔ اگر حکومت ڈاکٹر حفیظ شیخ اور شوکت ترین کی پالیسیوں کو اپنی پالیسیاں قرار دیتی ہے تو پھر اسے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ اس بجٹ میں جو ’’ یو ٹرن ‘‘ لیا گیا ہے، وہ اس کا اپنا فیصلہ ہے۔

وزیر اعظم عمران خان اس کے باوجود یہ کہہ رہے ہیں کہ دو سال کے مشکل فیصلوں سے خوش حالی والا بجٹ لائے ہیں جبکہ اکنامک سروے اور دیگر رپورٹس میں پاکستانی معیشت کے جو اشاریے دکھائے گئے ہیں، زمینی حقائق ان کی تصدیق نہیں کرتے۔

 غربت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی کی وجہ سے عذاب بن گئی ہے۔ بے روزگاری نے سماجی تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ ایسے حالات میں 8487ارب روپے کے بجٹ میں آمدنی کا جو ہدف رکھا گیا ہے، اس میں یہ واضح نہیں کہ 24 فیصد یعنی 1230 ارب روپے کا اضافی ریونیو کہاں سے آئے گا؟ 

آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ٹیکسوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ بعض شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی اور چھوٹ دی گئی ہے۔ خواہشات پر مبنی 900 ارب روپے کا ترقیاتی بجٹ تجویز کیا گیا ہے جبکہ رواں سال ترقیاتی بجٹ پر 200 ارب روپے سے زیادہ خرچ نہیں کیا جا سکا۔ دو سال میں اگر معیشت میں کوئی بہتری آئی ہوتی تو رواں سال کے ترقیاتی بجٹ میں کم از کم نظر تو آتی۔

دو سال میں ایسا کون سا معجزہ رونما ہو گیا ہے کہ تیسرے بجٹ میں ’’ سب کو خوش ‘‘ کر دیا گیا ہے اور مالیاتی وسائل کا رخ عوام کی طرف موڑ دیا گیا ہے۔ آئندہ سال نوجوانوں کو کاروبار کرنے اور کسانوں کو اپنی فصلوں کی کاشت کیلئے بلا سود قرضے دیئے جائیں گے۔

 دو سال کے بعد سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ بھی کر دیا گیا۔ دفاعی بجٹ بھی بڑھا دیا گیا۔ پاکستان کے ہر خاندان کے لئے صحت کارڈ ہوں گے۔ کسانوں کو بھی کارڈ دیئے جائیں گے۔ گھروں کی تعمیر کےلئے تین لاکھ روپے فی کس مہیا کئے جائیں گے۔ کئی شعبوں میں سبسڈیز کے ذریعے لوگوں کو ریلیف فراہم کیا گیا ہے۔

کئی دیگر شعبوں کو ٹیکس میں چھوٹ دے دی گئی ہے۔ اسٹاک ایکسچینج کے کاروبار پر کیپٹل گین ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ ترقی کی شرح میں اضافے کے بڑے ہدف کے ساتھ ساتھ غریب لوگوں کا معیار زندگی بلند کرنے کے کئی اعلانات کئے گئے ہیں۔ صنعتوں کو ٹیکسوں اور کسٹم ڈیوٹیز میں چھوٹ دی گئی ہے۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری، برآمد کنندگان، آٹو موبائل انڈسٹری، آئی ٹی انڈسٹری غرض ہر تجارتی اور صنعتی شعبے کو مراعات دی گئی ہیں۔ وزیر اعظم کی یہ بات درست ثابت ہو گئی ہے کہ بجٹ سے ہر کوئی خوش ہو جائے گا جبکہ گزشتہ دو سال کے دوران ہر کوئی ناراض تھا۔

بجٹ میں جو اعلانات کئے گئے ہیں، وہ خوش آئند ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن نہ لینے کا ’’یوٹرن‘‘ والا نعرہ لگا کر جو بجٹ بنایا گیا ہے، آئی ایم ایف کے اگلے بیل آوٹ پیکیج کے بغیر اس پر عمل درآمد کیسے ہو گا؟ 

اس لئے کہ اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ دیا جائے گا لیکن یہ تب ممکن ہو گا، جب ملک میں سیاسی استحکام ہو گا اور وسیع تر قومی اتفاق رائے سے پالیسیاں بنائی جائیں گی۔ جیسا کہ شوکت ترین نے ابتداء میں کہا تھا۔ سیاسی اتفاق رائے اور مالیاتی وسائل کے نئے ذرائع پیدا کئےبغیر ایک اور یوٹرن مجبوری بن جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔