Time 21 جون ، 2021
بلاگ

صرف ندامت نہیں، خوف بھی ہے!

پاکستان کے 22 کروڑ عوام کے منتخب ایوان قومی اسمبلی میں بجٹ اجلا س کے دوران تین روز تک ہونے والی ہنگامہ آرائی ، شور شرابے ، گالم گلوچ اور ہاتھا پائی کے مناظر دیکھ کر پوری قوم کی طرح مجھے بھی ندامت اور افسوس کا احساس ہوتا رہا۔ بلوچستان اسمبلی کے اندر اور باہر جو کچھ ہوا ، وہ بھی انتہائی ندامت کا باعث بنا ، لیکن افسوس اور ندامت سے زیادہ مجھے خوف محسوس ہوتا رہا کیونکہ ان مناظر سے ان قوتوں کے بیانیے کی تصدیق ہو رہی تھی ، جو سیاست اور سیاست دانوں کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار قرار دیتی ہیں۔

دنیا کے مختلف جمہوری ملکوں کے منتخب ایوانواں میں اس سے بھی بدترین واقعات رونما ہوئے ، جو کہ نہیں ہونے چاہئیں ، مگر وہاں سیاست اور جمہوریت کو پاکستان جیسے خطرات نہیں ہیں اور نہ ہی وہاں کے دانشور اور صاحب رائے حلقے آمریت نواز قوتوں کے راگ میں اپنے سر ملانے لگتے ہیں۔ 

مجھے بھی اپنے منتخب نمائندوں کے اس رویے پر شرم محسوس ہوتی ہے۔ میں بھی اس خیال کا حامی ہوں کہ اس طرح کا رویہ عوام کے منتخب نمائندوں کے شایانِ شان نہیں ہے۔ انہیں انتہائی مہذب اور اعلیٰ جمہوری رویوں کا پاسبان ہونا چاہئے لیکن میں اس خیال کا کبھی حامی نہیں ہو سکتا کہ ایسے واقعات کو جواز بنا کر جمہوری اور سیاسی نظام کی بساط لپیٹنے کی خواہش مند قوتوں کے بیانیے کو درست قرار دیا جائے۔

یہ ٹھیک ہے کہ ہنگامہ آرائی کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر میاں شہباز شریف تین دن تک بجٹ پر اپنی تقریر نہ کر سکے لیکن ہمیں اس بات کو بھی سراہنا چاہئے کہ منتخب ارکان نے اتنی تلخیوں کے باوجود بھی ایوان کو چلانے کےلئے پھر سے ایک فارمولے پر اتفاق کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر ایک دوسرے کی تنقید سننے اور برداشت کرنے پر رضا مندی ظاہر کی ، ورنہ آمریت نواز قوتیں تو جائز تنقید بھی برداشت نہیں کرتیں اور تنقید کرنے والوں کو عبرت کا نشان بنا دیتی ہیں۔

میں اس بات کی حمایت نہیں کر رہا کہ قومی اسمبلی میں ہمارے منتخب ارکان نے جو رویہ اختیار کیا ، وہ درست ہے۔ اس رویے پر میں مذمت کا لفظ استعمال نہیں کروں گا۔ مذمت کا اختیار صرف منتخب ارکان کو ہے۔ میں اس رویے پر سخت افسوس کا اظہار کرتا ہوں۔

 افسوس بھی اس وجہ سے ہوا ہے کہ سیاست گالی بن رہی ہے ، جو عوام اور قانون کی حکمرانی کا واحد ذریعہ ہے۔ قومی اسمبلی میں حالیہ ہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کا غیر جانبداری سے تعین کیا جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے ارکان کے رویوں پر زیادہ سوالات اٹھ سکتے ہیں۔

ویسے تو جمہوریت میں ہر ایک کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہے لیکن کسی پر بلا جواز الزامات عائد کرنا اور کسی کو گالی دینے کی ہر گز اجازت نہیں ہے۔ انتہائی معذرت کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے قائدین اور کارکنوں کو اپنے سیاسی بیانیے پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ یہ بیانیہ پاکستان کے جمہوری اور سیاسی عمل کو نئے خطرات سے دوچار کر رہا ہے۔

 تحریک انصاف کی قیادت نے ابتدا سے ہی سیاست دانوں کو کرپٹ ، چور اور ڈاکو قرار دینے والا بیانیہ اختیار کیا اور خاص طور پر پاکستان کی سیاسی تحریک کے بنیادی دھارے کی بڑی سیاسی جماعتوں کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ یہ بالکل ایسا ہی بیانیہ ہے ، جس کا اظہارآمر اقتدار پر قبضے کے بعد قوم سے اپنے اپنے پہلے خطاب میں اختیارکرتے رہے ۔ تحریک انصاف کے اس سیاسی بیانیہ کے لئےمیں کوئی اور الفاظ استعمال نہیں کروں گا بلکہ صرف اتنا کہوں گا کہ یہ بیانیہ جمہوری اقدار اور رویوں کے منافی ہے۔

 اس بیانیے نے سیاست اور سیاست دانوں کو گالی بنا دیا ہے۔ یہ بات پاکستان میں سیاسی اور جمہوری استحکام کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ سیاست اور سیاست دانوں پر عوام کا اعتماد ختم ہو رہا ہے۔ اس سے نہ صرف عوام خود کمزور ہو رہے ہیں بلکہ آمریت پسند قوتیں مضبوط ہو رہی ہیں۔

 تحریک انصاف کی حکومت میں مبینہ کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز سامنے آنے اور حکومت سے عوامی توقعات پوری نہ ہونے کے بعد تحریک انصاف کا بیانیہ خود تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت کو بھی بھسم کر رہا ہے۔ لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ نہ صرف سارے سیاست دان ایک جیسے ہوتے ہیں بلکہ ساری سیاسی جماعتیں بھی ایک جیسی ہی ہوتی ہیں۔

اس وقت پاکستان سیاسی قیادت کے بحران میں ہے اور یہ بحران خوف ناک سیاسی بحران میں تبدیل ہو گیا ہے۔ قومی اسمبلی کے حالیہ واقعات سے اس بحران کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس وقت حکمران جماعت تحریک انصاف مبینہ کرپشن کے بڑے بڑے اسکینڈلز کی وجہ سے بحیثیت سیاسی جماعت اندرونی خلفشار کا شکار اور کمزور ہو چکی ہے ۔

اس کی حکومت کو اپنے اندرونی تضادات اور ناراض دھڑوں سے ہر وقت خطرہ ہے۔ دوسری طرف تحریک انصاف کے بیانیے کی آڑ میں اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو طاقتور حلقوں نے احتساب کے شکنجے میں جکڑ لیا ہے اور انہیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ ان طاقتور حلقوں کے ایجنڈے کو پورا کرنے میں ساتھ دیں۔ جو قوتیں ملک میں صدارتی نظام لانے اور این ایف سی ایوارڈ میں تبدیلی لانے سمیت اپنے دیگر ایجنڈوں پر عمل کرنا چاہتی ہیں، وہ اس وقت بہتر پوزیشن میں ہیں۔ اس امر کا منتخب نمائندوں کو احساس ہونا چاہئے۔ تحریک انصاف کے بیانیے نے جو صورتحال پیدا کردی ہے اس سے نکلنا سیاسی قوتوں کے لئے آسان نہیں ہے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔