23 جون ، 2021
اگر آج بھی 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو اور مہاجر اکابرین کے درمیان ہونے والے وسیع اتفاق رائے، 1985 کی ’کراچی انکوائری کمیشن‘ رپورٹ اور 1988 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ کے درمیان ہوئے معاہدہ کو سامنے رکھا جائے اور ان سب سفارشات پر عمل درآمد کیا جائے تو شاید ہم دیہی اور شہری سندھ میں بسنے والے لوگوں کے سیاسی اور معاشی مسائل کا حل باآسانی نکال لیں۔ فرق صرف ’سوچ اور اپروچ‘ کا ہے اور اسی وجہ سے ہر چند سال بعد یہ معاملات سر اٹھاتے ہیں۔
معمر سیاست دان اور سندھ کے سابق وزیر خزانہ کمال اظفر نے حال ہی میں میرے ساتھ ایک طویل نشست میں ان عوامل کا ذکر کیا جن کی وجہ سے سندھ میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے اور ان کے ساتھ سابق وزیراعلیٰ ممتازعلی بھٹو کےاختلافات اتنے شدید ہوگئے کہ انہوں نے اپنا استعفیٰ سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھجوادیا مگر بھٹو نے انہیں استعفیٰ نہ دینے کو کہا اور یقین دلایا کہ وہ خود اس مسئلے کو حل کرینگے جس کے بعد انہوں نے سندھ کی اپوزیشن جماعتوں کے بجائے اردو بولنے والے نامور ادیبوں، دانش وروں اور شاعروں کو دعوت دی جن میں جمیل الدین عالی، سید محمد تقی، حکیم سعید، ڈاکٹر عالیہ امام اور دیگر ادیب شامل تھے۔
’’جب سندھی زبان کو سرکاری اور دفتر کی زبان قرار دینےکے بل کا ڈرافٹ تیار ہورہا تھا تو میں نے تجویز دی کہ آئین کے تحت اردو قومی زبان ہے لہٰذا بل میں واضح کردیا جائے کہ قومی زبان کے ساتھ سندھی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان کا درجہ حاصل ہوگا۔ مگر وزیراعظم کے معاون خصوصی رفیع رضا اور ممتاز بھٹو نے اس کی حمایت نہیں کی۔
میں نے جب یہی بات سندھ اسمبلی کے فلور پر کہی تو اس وقت کے اپوزیشن لیڈر وصی مظہر نے کھڑے ہوکر کہا کہ اگر ایسا ہوجائے تو ہم اپنا اعتراض واپس لیتے ہیں۔‘‘کمال اظفر آج بھی سمجھتے ہیں کہ بھٹو ’’اینٹی مہاجر‘‘ نہیں تھے اور اس سلسلے میں انہوں نے بھٹو صاحب کے ہاتھ سے لکھا ہوا خط بھی دکھایا جس پر لکھا تھا ’’کمال، نہیں ہر صورت مہاجروں کو جیتنا ہے‘‘۔
دیہی سندھ میں نہ اچھے سرکاری اسکول بنے نہ ہی اچھے اسپتال۔ کوٹہ سسٹم بھٹو صاحب نے 10 سال کے لئے نافذ کیا تھا تاکہ اس دوران وہاں کے نوجوانوں کو اوپر لایاجاسکے مگر یہ ایک عارضی طریقہ تھا جو بعد میں آنے والے حکمرانوں نے خاص طور پر جنرل ضیاء الحق نے سیاسی حربے کے طور پر استعمال کیا۔1985 میں کراچی کی ایک طالبہ بشریٰ زیدی بس کے ایک حادثہ میں ہلاک ہوئی تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت مہاجر، پٹھان فساد کروادیا گیا۔
وفاقی حکومت نے تحقیقات کے لئے سیکرٹری داخلہ مسعودالزمان کی سربراہی میں ’’کراچی انکوائری کمیشن‘‘ تشکیل دیا جس نے 6ماہ میں اپنی مفصل رپورٹ حکومت کو پیش کردی۔ اس میں نہ صرف ان عوامل کا ذکر کیا گیا جس کی وجہ سے فسادات پھوٹ پڑے بلکہ مسائل کا حل بھی تجویز کیا گیا جن میں بلدیاتی، انتظامی اور پولیس ریفارمز شامل تھیں۔
سیاست آگے بڑھی اور 1988 آگیا۔ اس دوران کراچی آگ کی لپیٹ میں آچکا تھا۔ الیکشن ہوئے تو سندھ میں واضح سیاسی تقسیم سامنے آئی۔ ایک نئی جماعت مہاجر قومی موومنٹ شہری علاقوں کی نمائندہ جماعت بن گئی جبکہ اندرون سندھ پی پی پی نے 95 فیصد نشستیں حاصل کیں۔
وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے واضح اکثریت کے باوجود ایم کیو ایم کو حکومت میں شمولیت کی دعوت دی اور سندھ کے وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ اور ایم کیو ایم کے چیئرمین عظیم احمد طارق نے ایک قابل عمل فارمولے پر دستخط کیے۔ یہ معاہدہ یعنی 1972 کے اتفاق رائے کی طرح محلاتی سازشیں کرنے والوں کو پسند نہ آیا۔مہاجروں کا ایک بڑا مسئلہ یہ رہا ہے کہ وہ اپنے مسائل کے حل کے لئے اسلام آباد اور پنڈی کی طرف دیکھتے ہیں۔
1989 میں سابق صدر غلام اسحاق خان اور جنرل اسلم بیگ نے ایم کیو ایم کو بے نظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں استعمال کیا اور سیاسی فضا کو خراب کیا۔ نوازشریف سے خفیہ معاہدہ کروایا گیا مگر تحریک ناکام ہوگئی جس کا سب سے زیادہ نقصان ایم کیو ایم کو ہوا۔
1990 کے الیکشن میں جو ہوا وہ نامکمل اصغر خان کیس میں موجود ہے۔ دو سال بعد ہی کراچی میں فوجی آپریشن محض ایم کیو ایم کو عسکری لحاظ سے ختم کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ سیاسی طور پر بھی ختم کرنے کی ابتدا تھی جس کا اختتام 22؍اگست 2016 کو ہوا۔ایم کیو ایم میں ایک بار پھر آکسیجن جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈالی گئی کیونکہ انہیں حکومت بنانے اور چلانے کے لئے ایسا کرنے کی ضرورت تھی۔
اس دور میں پہلی بار سندھ کو انتظامی طور پر تقسیم کرکے گورنر کو غیر معمولی اختیارات دے دیے گئے اور کراچی حیدرآباد کا کنٹرول ڈاکٹر عشرت العباد کے پاس رہا۔ البتہ اس دوران وفاقی، سندھ اور بلدیاتی اداروں میں ہم خیال حکومتوں سے فنڈز کی فراہمی آسان ہوگئی اور کراچی میں کچھ پل اور انڈر پاس بن گئے۔
دوسری طرف پی پی پی اس تمام عرصے میں سیاسی طور پر شہری سندھ کو اپنا ہمنوانہ بناسکی اور ان پچاس برسوں میں دو سے تین MNAs سے زیادہ شہری علاقوں سے کامیاب نہ ہوسکے اس کے باوجود کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے اردو بولنے والے اس جماعت کا حصہ ہیں۔بدقسمتی سے ہم آج بھی 1972 میں ہی کھڑے ہیں۔
سندھ میں جب بھی پی پی پی مخالف حکومت بنی وہ اسلام آباد یا گردونواح کے اشاروں پر بنی۔ اب پتا نہیں فواد چوہدری کس مشن پر کراچی کا دورہ کررہے ہیں۔2023 کے الیکشن قریب آ رہے ہیں۔ شہری سندھ کا میدان خالی ہے۔ عمارتیں گراکر پارک بن رہے ہیں مگر آج بھی کراچی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ جوں کا توں ہے۔
سندھ کے سیاسی و معاشی مسائل کا حل آج بھی 1972 کے اتفاق رائے میں موجود ہے۔ کراچی کے مسائل کا حل 1985 کی انکوائری رپورٹ میں درج ہے اور 1988 کا پی پی پی۔ ایم کیو ایم معاہدہ آج بھی قابل عمل ہے۔ جنوبی سندھ جیسے مطالبات صرف اور صرف نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر پی پی پی حکومت کو بھی پورے سندھ کا سوچنے کی ضرورت ہے۔ پورے صوبہ میں میرٹ کا کلچر فروغ پائے گا تو فائدہ سندھ کو ہی ہوگا بس صرف ’سوچ اور اپروچ‘ مثبت ہو۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔