بلاگ
Time 01 جولائی ، 2021

خاندان کو تباہ مت کریں، تشدد روکیں

اگر آپ کا بیٹا، بیٹی، بیوی یا خاندان کا کوئی دوسرا فرد بحیثیت خاندانی سربراہ آپ کی روک ٹوک اور سختی کو ہراسانی (Harassment)کے طور پر لیتا ہے، وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ اُس کے ذاتی معاملات میں بے جا دخل اندازی کی جا رہی ہے، اُس کی نگرانی یا تعاقب (Stalking)کیا جا رہا ہے، اُس کی پرائیویسی، آزادی، سالمیت اور سکیورٹی کو آپ سے خطرہ ہے، اُسے اگر آپ نے یہ بھی کہہ دیا کہ میں تمہاری پٹائی کروں گا، اگر بیوی کو یہ کہا کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا یا دوسری شادی کر لوں گا کیوں کہ تمہارا دماغ خراب ہے اور تم بانجھ ہو (جو جھوٹ ہو)، اگر آپ نے اپنے بیٹے بیٹی یا بیوی کی Insult (توہین) یا اُس کی تضحیک کر دی تو آپ کو تین سال تک جیل ہو سکتی ہے، ایک لاکھ تک جرمانہ بھی ہو سکتا ہے اور آپ کو بازو یا پاؤں میں کڑا پہنایا جا سکتا ہے، آپ کو اپنے گھر سے نکالا جا سکتا ہے ، اس کے علاوہ دوسرے بہت سے نتائج کا آپ کو سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

 ان سزاؤں کے آپ تب مستحق ہو سکتے ہیں اگر آپ نے خاندان کے کسی فرد پر تشدد کیا یا اُن سے جذباتی طور پر، نفسیاتی طور پر یا زبانی طور پر بدسلوکی کی جس کے نتیجہ میں متعلقہ فرد یہ محسوس کرے کہ اُس کی تذلیل کی جا رہی ہے تو بھی آپ سزا اور کڑا پہننے کے مستحق ہیں۔

 اس مجوزہ قانون میں اس بات کو بھی یقینی بنایا گیا ہے کہ گھرکے کسی بھی فرد کو جسمانی تشدد، جنسی استحصال وغیرہ سے بھی بچایا جائے۔ یہ سب کچھ اور بہت کچھ گھریلو تشدد کی روک تھام کے لیے قومی اسمبلی اور سینیٹ کی طرف سے پاس کیے گئے ایک بل (Domestice Violence Prevention and Protection Bill, 2021) کا حصہ ہے۔ 

اس بل میں سینیٹ کی طرف سے کچھ ترامیم کیے جانے کے بعد اُسے دوبارہ قومی اسمبلی کو بھیج دیا گیا ہے جہاں سے اسے دوبارہ پاس کروا یا جائے گا اور پھر یوں یہ بل قانون کی شکل اختیار کر لے گا اور لاگو ہو جائے گا۔ یہ بل حکومت کی طرف سے ڈاکٹر شیریں مزاری نے پیش کیا جسے حکومت و اپوزیشن بشمول پی ٹی آئی، ن لیگ اور پی پی پی کی مکمل حمایت کے ساتھ دونوں ایوانوں سے پاس کر وایا گیا۔ 

سینیٹ میں جماعت اسلامی کے سنیٹر مشتاق احمد نے اس بل کے خلاف آواز اُٹھائی جبکہ جمعیت علماء اسلام کے سینیٹرز اور جمعیت اہل حدیث کے ساجد میر نے بھی اعتراض کیا لیکن اکثریت نے اُٹھائے گئے اعتراضات پر توجہ نہیں دی اور بل پاس کر دیا۔ اس بل کے خلاف سوشل میڈیا پر کافی اعتراضات سامنے آئے جس کے بعد مجھے بھی اس مجوزہ قانون کو پڑھنے کا موقع ملا اور اس میں کچھ ایسے نکات ملے جو واقعی ضرررساں ہیں اور ہمارے خاندانی نظام کی تباہی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

 ہمارے ہاں یقیناً گھریلو تشدد کے واقعات بھی ہوتے ہیں، گھر کے اندر زیادتی اور بے رحمی کے واقعات بھی سامنے آتے رہتے ہیں جس کے لئے قانون اور سزاکے ساتھ ساتھ تربیت کے نظام کی بھی ضرورت ہے لیکن اس مجوزہ قانون میں کچھ ایسی دفعات شامل کی گئی ہیں جو معاشرتی بےراہ روی میں اضافے اور خاندانی نظام کی تباہی کا سبب بن سکتی ہیں، جو اولاد کو ماں باپ کے خلاف بغاوت کرنے کی حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں۔

 اس مجوزہ قانون کی کچھ ایسی شقیں ہیں جن کو مغربی معاشرہ کی نقالی کرتے ہوئے یہاں لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جس سے بے حیائی پھیلنے کا خطرہ ہے۔ اس قانون کی کچھ شقوں میں اتنا جھول ہے کہ اگر والدین اپنی اولاد کی تربیت کے لئے جائز روک ٹوک کرتے ہیں تو اُن کو بھی جیل کی ہوا کھانی پڑ سکتی ہے۔ مغربی معاشرے میں تو اگر بچہ والدین کے خلاف شکایت کر دے کہ اُس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں ہو رہا تو نہ صرف بچے کو ماں باپ سے چھین لیا جاتا ہے بلکہ والدین کو قانونی کارروائی کابھی سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جبکہ جب وہاں اولاد جوان ہو جائے تو پھر والدین کو اُن کو روک ٹوک کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

 اس لئے بہتر ہو گا کہ اس مجوزہ قانون کو قومی اسمبلی سے موجودہ حالت میں پاس کروانے کی بجائے پارلیمنٹ کے ممبران کی ایک کمیٹی (جس میں تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران شامل ہوں) بنا کر اُس کے سامنے جائزہ کے لئے رکھا جائے اور سامنے آنے والے اعتراضات پر غور کیا جائے اور اس بل کی اُن شقوں کو جو مغربی کلچر کی نقالی میں اس میں شامل کی گئی ہیں، اُنہیں مجوزہ قانون سے نکالا جائے۔

اس کے ساتھ ساتھ اس مجوزہ قانون کو اسلامی نظریاتی کونسل کو بھی بھجوایا جائے تا کہ تعین ہو سکے کہ اس مجوزہ قانون کی کون کون سی شقیں اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ مقصد ظلم اور زیادتی کو روکنا ہونا چاہئے نہ کہ کسی قانون کو اچھا نام دے کر خاندانی نظام کو توڑنا،بے راہ روی اور بے حیائی کے مغربی کلچر کو پروموٹ کرنا۔ 

درخواست صرف اتنی ہے کہ اس مجوزہ قانون کا دوبارہ بغور جائزہ لیا جائے، اس کو بہتر بنایا جائے اور اس کی خطرناک شقوں کو نکال دیا جائے۔ اگر ظلم و زیادتی واقعی سنگین نہیں تو متاثرہ خاندان کی تربیت کے ساتھ ساتھ افہمام و تفہیم سے معاملات کو حل کرنے کا بھی کوئی میکانزم تجویز کیا جانا چاہئے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔