11 جولائی ، 2021
پینے کے صاف پانی کی عدم دستیابی بلوچستان کے صرف ایک ڈویژن یا ڈسٹرکٹ کا مسئلہ نہیں بلکہ صوبے کے تمام اضلاع کو ایسی ہی صورتحال سامنا ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق بلوچستان کی ایک کروڑ 23 لاکھ آبادی میں سے 85 فیصد آبادی کو تو پینے کا صاف پانی ہی میسر نہیں ہے۔
ضلع بولان کی تحصیل بھاگ وہ بدقسمت علاقہ ہے جہاں کی 50 ہزار آبادی کو قیام پاکستان سے اب تک صاف پانی ہی میسر نہیں ہوا، بھاگ کے شہری اور جانور ایک جوہڑ سے پانی پیتے ہیں۔
تحصیل بھاگ کے لیے محکمہ پبلک ہیلتھ انجینئرنگ نے 3 واٹر سپلائی اسکیمیں بنائیں مگر سب کی سب کرپشن کی نذر ہوگئیں، سپریم کورٹ نے بھاگ میں صاف پانی کی عدم فراہمی کا نوٹس لیا چند روز صاف پانی آیا جس کے بعد ایک بار پھر شہری جوہڑ کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے۔
وفاقی حکومت نے 2005 میں بلوچستان کے عوام کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے ابتدائی طور پر 100 واٹرفلٹریشن پلانٹ لگائے یہ منصوبہ کامیاب ہوتا دیکھ کر 2007 میں وفاقی حکومت نے کلین ڈرنکنگ واٹر فور آل کے نام سے صوبے میں 75کروڑ روپے کی لاگت سے 409 فلٹریشن پلانٹس کی تنصیب کا منصوبہ شروع کیا تاہم بعد میں یہ منصوبہ بدعنوانی کی نذر ہوگیا۔
ذرائع کا بتانا ہے کہ جب یہ معاملہ نیب کے پاس گیا تو نیب بلوچستان نے تعمیراتی فرم اور پی ایچ ای سے 2 کروڑ 37 لاکھ وصول کرکے غیر فعال 300 پلانٹس کو فعال کروایا، 2014 میں 25 کروڑ روپے کی لاگت سے 150 مزید فلٹریشن پلانٹس صوبے میں لگائے گئے جس کے بعد اب سرکاری کھاتوں میں فلٹریشن پلانٹس کی تعداد 700 تک پہنچ گئی ہے۔
تاہم مناسب دیکھ بھال نہ ہونےکے باعث کوئٹہ میں 70 میں 20 اور صوبے بھر میں200 کے لگ بھگ فلٹریشن پلانٹس بند پڑے ہیں، پلانٹس کے ٹوٹے پھوٹے نل صاف پانی کی تلاش میں آنے والوں کو منہ چڑا رہے ہیں۔
دوسری جانب پانی کی کمیابی کے باعث آلودہ پانی کے استعمال سے صوبے میں ہیپاٹائٹس کا مرض تشویش ناک صورتحال اختیار کرگیا ہے، رواں سال کے پہلے 6 ماہ میں ہیپا ٹائٹس سی اور بی کے 10 ہزار مریض صوبے کے اسپتالوں میں لائے گئےجبکہ 3 ہزار مریض ضلع جعفرآباد میں رپورٹ ہوئے ہیں۔
ہیپاٹائٹس کے مریضوں میں دوسرے نمبر پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا آبائی ضلع لسبیلہ ہے جہاں 13ہزار افراد کی اسکریننگ کے دوران ایک ہزار افراد ہیپاٹائٹس میں مبتلا پائے گئے۔
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں بڑھتے ہوئےہیپاٹائٹس اور پیٹ کے امراض سے بچاؤ کے لیے شہریوں کو صاف پانی کی فراہمی ضروری ہے جس کےلیے صوبے میں مزید فلٹریشن پلانٹس لگانا ناگزیر ہیں، اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومت کو غیر فعال پلانٹس کو فعال کرنے کے لیے اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔