بلاگ
Time 21 جولائی ، 2021

غدار بھٹو؟

جہاں بچوں کو جمہوریت کے نقصانات اور آمریت کے فوائد پڑھائے اور بتائے جاتے ہوں، جہاں نصاب میں سے جمہوری تحریکیں غائب ہوں، وہاں ذوالفقار علی بھٹو ’’غدار‘‘ ہی کہلائے گا۔ 

یہاں آئین توڑنے والوں کو محب وطن کہا جاتا ہے انتقال کی صورت میں پورے سرکاری اعزازکے ساتھ دفنایا جاتا ہے اور آئین بنانے والے کو ایک عدالتی قتل کے ذریعہ پھانسی چڑھا دیا جاتا ہے۔

اب دیکھیں نا اس سے بڑی ملک سے ’’غداری‘‘ اور کیا ہوسکتی ہے کہ امریکہ اس سے کہتا رہا کہ اپنا ایٹمی پروگرام ترک کردو مگر اس نے انکار کردیا۔ اس کو دھمکی دی گئی کہ تمہیں ’’نشان عبرت‘‘ بنا دیا جائے گا مگر اس پر ایک جنون سوار تھا۔

 ایک دن ملتان میں ملک کے جونیئر اور سینئر سائنس دانوں کو جمع کیا اور پوچھا، ’’ہم کتنے سالوں میں ایٹم بم بنا سکتے ہیں‘‘۔ سب اس سوال پر حیران رہ گئے۔ کسی نے کہا دس سال تو کسی نے پانچ سال۔ وہ کھڑا ہوا اور ہاتھ بلند کرکے تین انگلیوں کے اشارے سے کہا، ’’مجھے تین سال میں چاہئے‘‘۔ یہ واقعہ کتابوں میں (ہماری نہیں باہر کی) بھی درج ہے اور میں نے ذاتی طور پر ڈاکٹر ثمر مبارک اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے تصدیق بھی کی۔ 

کسی نے اس میٹنگ میں سوال کیا کہ پیسہ کہاں سے آئے گا اس نے جواب دیا، ’’یہ آپ کا مسئلہ نہیں ہے‘‘۔ پھر وہ کچھ عرب ممالک کے دورہ پر نکل گیا اور واپس آکر خوش خبری دی کہ پروگرام تیزی سے مکمل کیا جائے پیسے کا انتظام ہوگیا ہے۔ اب ایسا خطرناک آدمی ’’غدار‘‘ ہی کہلائے گا۔

کبھی میں سوچتا ہوں کہ اس نے تین سال کیوں کہے تھے۔ شاید اسے پتا تھا کہ اس کے پاس وقت کم ہے۔ بعد میں آنے والوں نے اس میں اپنا اپنا حصہ ضرور ڈالا مگر’’پھانسی‘‘ وہی چڑھا۔

وہ امریکہ کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکا تھا۔ انہیں نظر آرہا تھا کہ یہ زندہ رہ گیا تو کئی عرب اور اسلامی اور تیسری دنیا کے ممالک اس راہ پر چل پڑیں گے۔ وہ امریکی اتحاد سیٹو اور سینٹو سے نکل کر غیرجانبدار تحریک کا حصہ بن گیا تھا۔ چین سے دوستی کی نہ صرف بنیاد رکھی بلکہ پاکستان میں بھی ’’اسلامی سوشلزم‘‘ کا نعرہ لگایا، عوام کو شعور دیا، روس کی مدد سے پاکستان میں اسٹیل کی بنیاد رکھی۔

 یہ سب اس امریکہ کے لئے خطرہ کی گھنٹی تھی جس نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمیں اپنا اتحادی بنالیا تھا۔ بائیں بازو کی تحریکوں سے خوف زدہ امریکہ نے اس وقت یہاں انہیں کچلنے کے لئے ہمارے ہی حکمرانوں کو استعمال کیا اور دائیں بازو کو مضبوط کیا۔ آخر میں اتحادیوں اور کچھ بائیں بازو کی جماعتوں سے مل کر بھٹو کو اقتدار سے بے دخل کردیا۔

بھٹو سے سیاست میں بے شمار غلطیاں بھی ہوئیں۔ کس سے نہیں ہوئیں مگر شاید اسی دور میں ہماری خارجہ پالیسی غیرجانبدار اور آزاد نظر آئی۔اب یہ ’’غداری‘‘ نہیں تو اور کیا ہے کہ اس نے عربوں کو تیل بطور ہتھیار استعمال کرنے کا مشورہ دیا، تیسری دنیا کے ممالک کو متحد کیا۔ لاہور میں تاریخی اسلامی سربراہی کانفرنس میں شاہ فیصل سے حافظ الاسد، کرنل قذافی سے لے کر شاہ حسین اور یاسر عرفات کو ایک پلیٹ فارم پر لاکر امریکہ اور مغرب کو واضح پیغام دیا۔ اس کی سزا تو اسے ملنا تھی سو ملی۔

وہ امریکہ کے لئے بڑا خطرہ بن چکا تھا۔ لہٰذا آخری وارننگ کے لئے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کو بھیجا گیا۔ میں نے چند سال پہلے یہاں موجود ایک سینئر امریکی سفارت کار سے انٹرویو میں اس واقعہ کی تفصیل پوچھی تھی کیونکہ وہ ملاقات میں موجود تھے۔

 ’’امداد یا عبرت کا نشان‘‘ کچھ ایسی ہی بات ہوئی تھی۔ایسے ہی نہیں اس ایٹم بم کو ’’اسلامی بم‘‘ کہا گیا اس میں بڑے بڑے عرب ممالک کی امداد شامل ہے اور یہ اسی کا کارنامہ تھا جو پچاس سال بعد بھی مخالفین کے اعصاب پر سوار ہے۔

اب ایسے ’’غدار‘‘ کو پتا نہیں ایٹم بم کے خالق ڈاکٹر قدیر نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں محب وطن ٹھہرایا اور بڑے تیقن سے کہا ’’میں نے اس سے زیادہ محب وطن شخص نہیں دیکھا‘‘۔ میں تو اس کی جاں بخشی کے لئے خفیہ طور پر اس وقت ترکی گیا اور وہاں کے صدر سے درخواست کی کہ اس شخص کو بچالیں اسلامی دنیا کو اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے جنرل ضیاء کو فون بھی کیا مگر یہ بھی کہا یہ شخص بھٹو کو معاف نہیں کرے گا‘‘۔

ہمارے بڑے بڑے طاقتور آمر امریکہ کے سامنے جھک گئے اتحادی بنے رہے، اشاروں پر چلتے رہے مگر وہ کھڑا رہا اور راجہ بازار میں کھڑے ہوکر پرچہ لہرا کر کہا، ’’یہ سفید ہاتھی میرے خون کا پیاسا ہے‘‘۔ کمال وژن تھا 1977 میں ایک تقریب میں اس نے کہا تھا اس خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے بارے میں (1)ایران میں اسلامی انقلاب آئے گا (2)روس افغانستان پر حملہ کردے گا اور (3)پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی بڑھے گی۔بھٹو نے ایک ’’غداری‘‘ اور بھی کی تھی اور وہ تھی اس ملک کو ایک متفقہ آئین دینے کی۔ اس کے بدترین مخالفین نے بھی اس پر دستخط کئے۔ آج اگر پاکستان میں قانونی اور آئینی تعریف ’’غداری‘‘ کی موجود ہے تو وہ اس کے آرٹیکل۔6میں ہے۔ اب اس کو پڑھ لیں اور فیصلہ کرتے جائیں غداروں کا۔

رہ گئی بات سانحہ مشرقی پاکستان کی تو وہاں بھٹو کی سیاسی غلطی قومی اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرنے کا مطالبہ تھا۔ 1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کی واضح اکثریت تھی اور حکومت بنانا اس کا حق تھا۔ یہ وہی غلطی تھی جو 1954ء میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ’’جگتو فرنٹ‘‘ جو بائیں بازو کا اتحاد تھاکی جیت کے بعد اسمبلی توڑ کر کی گئی۔

 اس وقت فرنٹ کے 21نکات تھے جو سکڑ کر مجیب کے چھ نکات بن گئے۔ سچ پوچھیں تو ہماری اشرافیہ نے بنگالیوں کو کبھی قبول ہی نہیں کیا۔ زبان کے مسئلے سے لے کر ون یونٹ اور پھر دو مارشل لا۔ 1970ء میں بھٹو برسراقتدار نہیں تھا۔ جو تھا اس کو بعد میں سرکاری اعزاز کے ساتھ دفن کیا گیا۔بھٹو کو اور اس کے سیاسی نظریہ کو تو خود اس کی پارٹی پوری طرح نہ سمجھ سکی اسی لئے ’’زندہ ہے بھٹو زندہ ہے‘‘ محض ایک نعرہ بن کر رہ گیا۔ بھٹو پر جنرل ضیاء جیسا حکمران بھی کرپشن کا ایک الزام نہ لگا سکا۔ آج صرف یہی الزام کافی ہے۔

قدرت اﷲ شہاب نے لکھا ہے کہ بھٹو کی سیاست کا آغاز صدر اسکندر مرزا کے دور میں ایوان صدر کی لائبریری سے ہوا۔ ’’ایک دن مجھ سے پوچھا تم زلفی کو جانتے ہوں۔ میں نے کہا جی نہیں۔ جواب دیا بہت قابل نوجوان وکیل ہے۔ لائبریری دکھانے میں اس کی مدد کرو۔ چند روز میں پوری لائبریری کھنگال کر رکھ دی۔

 مسٹر بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی۔ انہیں بہت سے جدید علوم اور ان کے اظہار پر کمال مہارت حاصل تھی۔ وہ وزیر خارجہ سے بہت آگے تک گئے اور انجام کار اقتدار کے میدان کو یوں چھوڑا کے ’’جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے‘‘۔ ’’غدار‘‘ ہوتو ایسا ورنہ محب وطن تو بہت دیکھے ہیں۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔