02 اگست ، 2021
ہمارے معاشرے کی بہنوں بیٹیوں کو آزادی، برابری اور اختیار ایسا کہ جس میں خاندان کے کسی فرد کی طرف سے بھی کسی قسم کی روک ٹوک کی اجازت نہ ہو، کا سبق پڑھانے والا طبقہ چاہے، اُس کا تعلق ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ والوں سے ہو ، وہ نام نہاد، انسانی حقوق اور حقوق نسواں کے علمبردار ہوں یا میڈیا کا وہ ٹولہ جو خواتین کی مادرپدر آزادی بلکہ مذہبی و معاشرتی روایات سے بغاوت کا سبق دیتا ہے‘ یہ سب اس معاشرے کی عورت کو دراصل اردگرد پھیلے انسان کی شکل میں چھپے جانوروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے قائل ہیں۔
بات تو عورت کے حقوق کی کرتے ہیں، بظاہر ہمدردی بھی عورت کے ساتھ دکھاتے ہیں لیکن یہ لوگ اُس ظلم میں شریک جرم ہیں جس کا شکار پاکستان کی عورت اور بچے ہو رہے ہیں۔ یہ غیر محرم مردوں اور عورتوں کے درمیان دوستی اور اُن کے آپس میں بغیر شادی کے ساتھ رہنے کے تو حق میں ہیں لیکن بیٹیوں اور بہنوں کو آزادی ، برابری، حقوق نسواں اور انسانی حقوق کے نام پر ایسا سبق پڑھاتے ہیں کہ کسی خاتون کا گھر نہ بسے، باپ بھائی، شوہر اور بیٹے جیسے بہترین رشتوں سے اعتبار اُٹھ جائے۔ باپ کون ہوتا ہے، شوہر کی کیا مجال، بھائی کا کیا حق کہ مرضی چلائے، روکے ٹوکے۔
سوشل میڈیا پر ایک ٹی وی اداکارہ نے اپنے شوہر (جس کا تعلق بھی شوبز سے ہے) کے ساتھ ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اپنے شوہر کی ضروریات کا خیال رکھوں، اُس کے کپڑے استری کروں وغیرہ وغیرہ ۔ اُس نے یہ بھی کہا کہ مجھے میرے شوہر کی ضروریات کے بارے میں زیادہ علم ہونا چاہیے۔ اس پر اُس بچاری اداکارہ کو آزاد خیال لبرل طبقے نے ایسے آڑے ہاتھوں لیا جیسے اُس خاتون نے کوئی جرم کر دیا ہو۔ اس کے ساتھ ہی چند عام گھرانوں کی بچیوں نے بھی یہ سوال اُٹھایا کہ بیوی کیوں اپنے شوہر کی تمام ضروریا ت کا خیال رکھے؟ ایسی بچیاں دراصل غیر محسوس انداز میں اُس پروپیگنڈہ کا شکار ہو رہی ہیں جس کو میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیلایا جا رہا ہے اور جس پر عمل کر کے کوئی شادی نہیں چل سکتی، کوئی خاندان باقی نہیں رہ سکتا۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ہاں عورت کے ساتھ زیادتی نہیں ہوتی‘بالکل ہوتی ہے لیکن یہ تاثر دینا جیسے یہ ہر گھر کی کہانی ہے اس لیے ہر عورت اپنا فیصلہ خود کرے، اپنی مرضی چلائے، جو چاہے کرے، جہاں چاہے جائے یہ وہ طرزِ عمل ہے جسے چند ایک واقعات کو بنیاد بنا کر پورے معاشرتی نظام کو تہس نہس کرنے کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ عورت کو آزادی اور برابری کے نام پر تعلیم دی جاتی ہے کہ جو جی چاہے کریں، مرد کے ساتھ شانہ بشانہ کام کریں، گھروں میں نہ بیٹھیں، باہر نکلیں۔ عورت بچاری باہر نکلتی ہے، اپنی آزادی اور برابری کو انجوائے کرنا چاہتی ہے لیکن باہر درندہ صف انسان، جنہیں انسان کہنا انسانیت کی توہین ہے، اُن کے شکار کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
سرکاری اور نجی شعبوں میں جہاں خواتین نوکری کے لیے جاتی ہیں اُن سے پوچھیں اُن بیچاریوں کے ساتھ کیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے، اُنہیں کس کس طرح سے ہراساں کیا جاتا ہے، اُن کا کیسے استحصال کیا جاتا ہے۔ اگر کہا جائے کہ مجبوری کی بنا پر یا شوق سے اگر کوئی عورت کام کرنا چاہے تو کم از کم اُسے ایسا ماحول دیں کہ اُس کو ہراساں نہ کیا جا سکے، اُس کا غیر محرم مردوں سے کم سے کم براہ راست رابطہ ہو لیکن یہ بات اس طبقہ کو منظور نہیں۔ وہ بضد ہے کی عورت اور مرد ایک ساتھ کام کریں، آزاد گھومیں، دوستیاں کریں۔
اس طبقہ کو شوہر، باپ، بھائی اور بیٹے پر تو شک ہے لیکن اُس غیر مرد سے کوئی خطرہ نہیں جس کے ساتھ عورت کو کام کرنے، دوستی کرنے کو برابری اور آزادی کا نام دے کر عورت کو دراصل استحصال کا نشانہ بنوایا جا رہا ہے۔ میڈیا سمیت کئی شعبوں میں عورت کو ایک Object کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو عورت کے ساتھ انتہائی زیادتی ہے لیکن اس کو بھی یہ طبقہ ترقی کے نام پر فروغ دے رہا ہے۔
معاشرہ کی تربیت کی بات کرتے آپ کبھی اس طبقہ کو نہیں سنیں گے۔ ہمارے ہاں خرابیاں بہت ہیں، سماجی تعلقات کے حوالے سے کئی خاندانوں میں مسائل ہیں، یہاں جہالت بھی بہت ہے، عورتوں کو اُن کے حقوق بھی نہیں دیے جاتے۔ ان خرابیوں کو دور کرنے کے لیے ایک طرف تربیت اور کردار سازی کی بہت ضرورت ہے تو دوسری طرف ایسے مجرموں کو نشان عبرت بنایا جانا چاہیے جو عورت اور بچوں سے زیادتی کی حدوں کو بھی پار کرتے ہیں، اُن سے زیادتی اور اُن کی جان تک لے لیتے ہیں لیکن یہ طبقہ کبھی تربیت اور کردار سازی کی بات نہیں کرتا۔
یہ طبقہ عورتوں اور بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں اور اُنکی جان تک لینے والوں کو نشان عبرت بنانے کے بھی خلاف ہے، سرعام پھانسی کا یہ مخالف ہے اور کہتا ہے کہ اس سے پھانسی دیے جانے والے مجرم کا ـ’’وقار‘‘ مجروح ہوتا ہے۔ مغرب کی نقالی میں اب تو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ موت کی سزا کو ہی ختم کر دیا جائے کیوں کہ یہ انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ یہ طبقہ آخر چاہتا کیا ہے،؟ یہ کون لوگ ہیں؟ کیا نور مقدم کے قاتل کو سرعام پھانسی نہیں دینی چاہیے؟ کیا موٹر وے پر ایک خاتون سے اُس کے بچوں کے سامنے زیادتی کرنے والے جانوروں کو موٹر وے پر ہی دنیا کے سامنے نہیں لٹکانا چاہیے؟ کیا بچوں سے زیادتی کرنے والوں کو چوکوں چوراہوں پر پھانسیاں نہیں دینی چاہئیں؟ اب تو تمام سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی خواتین ممبران قومی اسمبلی نے بھی یک زبان ہو کر ایسے درندہ صفت مجرموں کو سرعام پھانسی دینے کا مطالبہ کر دیا ہے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔