12 اگست ، 2021
28مارچ 2016کو میں نے جنگ میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا ’’امریکی پالیسی پیپر نے لبرل ازم کے اصل ایجنڈے کو بےنقاب کر دیا‘‘۔ اس کالم کو میں یہاں دوبارہ شائع کر رہا ہوں تاکہ قارئین کرام، ہمارے سیاستدان، حکمران، پارلیمنٹیرینز، سیاسی جماعتیں، میڈیا، جج، فوج و سول سروس کے اراکین اور علماء کو ایک یاد دہانی ہو جائے کہ کس سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اسلام کو تبدیل کرنے کی سازش ہو رہی ہے اور اس میں جانتے بوجھتے یا انجانے میں ہم کیا کردار ادا کر رہے ہیں۔
’’امریکہ اسلام کو کس شکل میں ڈھالنے کا خواہاں ہے اور کن کن ذرائع، پالیسیوں اور سوچ کے ذریعے اپنے من پسند اسلام کو دنیا میں فروغ دینے کی کوشش کر رہا ہے، اس پر کسی سازشی تھیوری یا تجزیہ کی بجائے آئیں ذرا اُس دستاویز پر ہی نظر دوڑا لیتے ہیں جو امریکہ و یورپ کی پالیسی کا Focusہے اور جسے امریکہ و یورپ اسلامی ممالک پر مسلط کرنے کے لیے پورے طریقے سے سرگرم ہیں۔
میری تو قارئین کرام کے ساتھ ساتھ سیاسی و مذہبی رہنماؤں، فوج اور سکیورٹی ایجنسیوں کے اعلیٰ افسروں، پارلیمنٹ کے ممبران اور حکمرانوں کے علاوہ میڈیا کے بڑوں سے بھی گزارش ہوگی کہ اس دستاویز کا ضرور مطالعہ کریں تاکہ لبرل ازم اور جدت پسندی کے اُس بخار کی وجہ کو بھی سمجھا جا سکے جو آج کل کئی دوسرے اسلامی ملکوں کے علاوہ ہمارے حاکم طبقات اور میڈیا کو بھی چڑھا ہوا ہے اور جہاں اسلام کے نفاذ اور شریعت کی بات کرنے والوں کو بنیاد پرستی اور شدت پسندی کے ساتھ جوڑ دیا جاتا ہے۔
آپ اس رپورٹ کو اس لئے بھی پڑھ کر حیران ہوں گے کہ کس طرح ایک پالیسی کے تحت مسلمانوں کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے تاکہ امریکہ کے ورلڈ آرڈر اور مغربی تہذیب کو اسلامی ممالک میں بھی لاگو کیا جا سکے، جس کے لئے اسلام کے اصل کو بدلنا شرط ہے۔ اِس رپورٹ کو پڑھ کر اپنے اردگرد اُن چہروں کو پہچاننے کی بھی کوشش کریں جو اسلام کو امریکہ کی خواہش کے مطابق بدلنا چاہتے ہیں۔
رینڈ کارپوریشن (Rand Corporation) امریکہ کا ایک اہم ترین تھنک ٹینک ہے جو امریکی حکومت کے لئے پالیسیاں بناتا ہے۔ 9/11کے بعد رینڈ کارپوریشن کے نیشنل سکیورٹی ریسرچ ڈویژن نے "CIVIL DEMOCRATIC ISLAM, PARTNERS, RESOURCES AND STRATEGIES" کے عنوان سے 72صفحات پر مشتمل ایک پالیسی پیپر تیار کیا جسے انٹرنیٹ پر اس تھنک ٹینک کی ویب سائٹ پر پڑھا جا سکتا ہے۔
اس پالیسی پیپر کے ابتدا ہی میں بغیر کسی لگی لپٹی کے لکھا گیا کہ امریکہ اور ماڈرن انڈسٹریل ورلڈ کو ایسی اسلامی دنیا کی ضرورت ہے جو مغربی اصولوں اور رولز کے مطابق چلے جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمانوں میں موجود ایسے افراد اور طبقہ کی پشت پناہی کی جائے جو مغربی جمہوریت اور جدیدیت کو ماننے والے ہوں۔
ایسے افراد کو کیسے ڈھونڈا جائے یہ وہ سوال تھا جس پر رینڈ کارپوریشن نے مسلمانوں کو چار Categoriesمیں تقسیم کیا۔ پہلی قسم بنیادپرست (Fundamentalists) جن کے بارے میں رینڈ کارپوریشن کہتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جومغربی جمہوریت اور موجودہ مغربی اقدار اور تہذیب کو ماننے کی بجائے اسلامی قوانین اور اسلامی اقدار کے نفاذ کے خواہاں ہیں۔
دوسری قسم قدامت پسند (Traditionalists) مسلمانوں کی ہے جو قدامت پسند معاشرہ چاہتے ہیں کیوں کہ وہ جدیدیت اور تبدیلی کے بارے میں مشکوک رہتے ہیں۔ رینڈ کارپوریشن کے مطابق تیسری قسم ایسے مسلمانوں کی ہے جنہیں جدت پسند (Modernists) کا نام دیا گیا جو بین الاقوامی جدیدیت (Global Modernity) کا حصہ بننا چاہتے ہیں اور اس سلسلے میں اسلام کو بھی جدید بنانے کے لئے اصلاحات کے قائل ہیں۔ چوتھی قسم ہے سیکولر (Secularists) مسلمانوں کی جو اسلامی دنیا سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ بھی مغرب کی طرح دین کو ریاست سے علیحدہ کر دیں۔
پہلی قسم کا حوالہ دیتے ہوئے امریکی تھنک ٹینک کا اسٹریٹجک پیپر لکھتا ہے کہ بنیادپرست امریکہ اور مغرب کے بارے میں مخالفانہ رویہ رکھتے ہیں۔ رپورٹ کے Footnotesمیں مرحوم قاضی حسین احمد اور جماعت اسلامی کا حوالہ بنیاد پرستوں کے طور پر دیا گیا اور یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ضروری نہیں کہ Fundamentalists دہشتگردی کی بھی حمایت کرتے ہوں۔
اس رپورٹ نے امریکی حکمرانوں کو تجویز دی کہ بنیاد پرست مسلمانوں کی حمایت کوئی آپشن نہیں۔ قدامت پسند مسلمان رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ کے مطابق اگرچہ اعتدال پسند ہوتے ہیں لیکن ان میں بہت سے لوگ بنیادپرستوں کے قریب ہیں۔
امریکی پالیسی رپورٹ کے مطابق اعتدال پسندوں میں یہ خرابی ہے کہ وہ دل سے جدت پسندی کے کلچر اور مغربی ویلیوز کو تسلیم نہیں کرتے۔ جدت پسنداور سیکولر مسلمانوں کے بارے میں رپورٹ کا کہنا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مغربی اقدار اور پالیسیوں کے قریب ترین ہیں۔ لیکن، رینڈ پالیسی رپورٹ کے مطابق، یہ دونوں طبقے (Modernists and Secularists) مسلمانوں میں کمزور ہیں، ان کو زیادہ حمایت حاصل ہے اور نہ ہی ان کے پاس مالی وسائل اور موثر انفراسٹرکچر موجود ہے۔
پالیسی رپورٹ نے اسلامی دنیا میں مغربی جمہوریت، جدت پسندی اور ورلڈ آرڈر کے فروغ اور نفاذ کے لئے کئی تجاویز دیں اور کہا کہ امریکہ اور مغرب کو بڑی احتیاط کے ساتھ یہ فیصلہ کرنا ہے کہ اسلامی ممالک اور معاشروں میں کن افراد، کیسی قوتوں اور کیسے رجحانات کو مضبوط بنانے میں مدد دینی ہے تاکہ مقررہ اہداف حاصل ہو سکیں۔
ان اہداف کے حصول کے لئے امریکہ و یورپ کو پالیسی دی گئی کہ وہ جدت پسندوں (Modernists) کی حمایت کریں، اس طبقہ کے کام کی اشاعت اور ڈسٹری بیوشن میں مالی مدد کریں، اُن کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ عوام الناس اور نوجوانوں کے لئے لکھیں، ایسے جدت پسند نظریات کو اسلامی تعلیمی نصاب میں شامل کریں، جدت پسندوں کو پبلک پلیٹ فارم مہیا کریں،بنیادپرست اور قدامت پرست مسلمانوں کے برعکس جدت پسندوں کی اسلامی معاملات پر تشریحات، رائے اور فیصلوں کو میڈیا، انٹر نیٹ، اسکولوں کالجوں اور دوسرے ذرائع سے عام کریں، سیکولرازم اور جدت پسندی کو مسلمان نوجوانوں کے سامنے متبادل کلچر کے طور پر پیش کریں، مسلمان نوجوانوں کو اسلام کے علاوہ دوسرے کلچرز کی تاریخ پڑھائیں، سول سوسائٹی کو مضبوط کریں۔
اس کے ساتھ ساتھ اس پالیسی میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ قدامت پسندوں کو بنیادپرستوں کے خلاف سپورٹ کریں، ان دونوں طبقوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دیں، پوری کوشش کی جائے کہ بنیاد پرست مسلمان اور قدامت پرست آپس میں اتحاد نہ قائم کر سکیں،
قدامت پسندوں کی دہشت گردی کے خلاف بیانات کو خوب اجاگر کریں، بنیاد پرستوں کو اکیلا کرنے کے لئے کوشش کریں کہ قدامت پسند اور جدت پسند آپس میں تعاون کریں، جہاں ممکن ہو قدامت پسندوں کی تربیت کریں تا کہ وہ بنیاد پرستوں کے مقابلہ میں بہتر مکالمہ کر سکیں، بنیاد پرستوں کی اسلام کے متعلق سوچ کو چیلنج کریں، بنیاد پرست طبقوں کے غیرقانونی گروہوں اور واقعات سے تعلق کو سامنے لائیں، عوام کو بتائیں کہ بنیاد پرست حکمرانی کر سکتے اور نہ اپنے لوگوں کو ترقی دلوا سکتے ہیں، بنیاد پرستوں میں موجود شدت پسندوں کی دہشتگردی کو بزدلی سے جوڑیں۔
اس پالیسی رپورٹ میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ بنیاد پرستوں کے درمیان آپس کے اختلافات کی حوصلہ افزائی کریں۔ بنیاد پرستوں کو مشترکہ دشمن کے طور پر لیا جائے۔ رینڈ کارپوریشن نے اپنی پالیسی رپورٹ میں امریکہ و یورپ کو یہ بھی تجویز دی کہ اس رائے کی حمایت کی جائے کہ ریاست اور مذہب کو جدا کیا جائے اور اسے اسلامی طور پر بھی صحیح ثابت کیا جائے اور یہ بھی مسلمانوں کو بتایا جائے کہ اسلام کو ریاست سے جدا کرنے سے اُن کا ایمان خطرے میں نہیں پڑے گا بلکہ مزید مضبوط ہو گا‘‘۔
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔