19 اگست ، 2021
ایک وڈیو وائرل ہوئی جس کی چند جھلکیاں میں نے ٹویٹر پر دیکھیں تو سر شرم سے جھک گیا۔واقعہ گزشتہ ہفتہ 14اگست کا ہے۔
مینار پاکستان کے سائے تلے ایک خاتون ٹک ٹاکر جو وہاں کوئی وڈیو بنا رہی تھی کو جشن آزادی منانے کے لیے آنے والے کوئی چار سو مردوں نے گھیر لیا اور اپنے عمل اور رویے سے ثابت کیا کہ وہ انسان نہیں حیوان تھے۔ ان حیوانوں نے اُس خاتون کو پکڑا، اُس کو اچھالا، اُس کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کی اور اخباری رپورٹس کے مطابق اُس خاتون کے کپڑے تک بھی پھاڑے دیے۔
خاتون کون تھی، کیا کر رہی تھی اس بحث کی کوئی گنجائش نہیں کیوں کہ جو کچھ اُس کے ساتھ ہوا وہ ہمارے معاشرہ میں انسانیت کے مردہ ہونے اور حیوانیت کی روش کے زور پکڑنے کی ایک تازہ مثال ہے۔ اُس خاتون کی ان جانوروں سے جان کیسے چھٹی اس بارے میں مجھے معلوم نہیں لیکن المیہ دیکھیں سر عام ایک خاتون کے ساتھ انتہا کی بدتمیزی کی گئی، اُس کی بے حرمتی کی گئی اور وہاں موجود چار سو افراد کا مجمع اس بدتمیزی اور بدتہذیبی میں یا تو خود حصہ دار تھا یا ایک نہتی عورت کی بے حرمتی پر تماش بین کا رول ادا کر رہا تھا۔
کوئی اس درندگی کو روکنے والا نہ تھا، کسی نے نہ سوچا کہ یہ جو ایک عورت کے ساتھ ہو رہا ہے وہ اس معاشرہ کی بیٹی ہے، وہ بھی کسی کی بہن ہے ۔ اس واقع نے ثابت کیا کہ مسئلہ چند افراد کا نہیں بلکہ اکثریت کا ہے کیوں کہ اگر اس عمل میں چند ایک افراد ملوث ہوتے اور وہاں موجود اکثریت ایسے چند افراد کے عمل کو بُرا جانتی، اُن کو زیادتی کرنے سے روکتی تو پھر کم از کم یہ محسوس ہوتا کہ معاشرہ زندہ ہے۔ لیکن جب مجمع میں شامل اکثریت اس حیوانیت کے عمل میں خود حصہ دار ہو، اس کو Enjoy کر رہی ہو تو اس سے ثابت ہوا کہ ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر تقریباً مردہ ہو چکا اور مکمل تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا۔
ہمیں بار بار انسانیت کو شرمندہ کرنے والے حیوانیت کے واقعات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے لیکن واقعات ہیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہے ۔ چاہے لاہور موٹر وے سانحہ ہو، عثمان مرزا کی حیوانیت کا کیس، نور مقدم کا بہیمانہ قتل، قبرستان میں دفنائی جانے والی مردہ خاتون کی بے حرمتی کا واقعہ یا بچوں کے ساتھ زیادتی کے نہ ختم ہونے والے واقعات آئے روز نئے نئے رنگ میں حیوانیت معاشرہ کا منہ چڑا رہی ہے لیکن کوئی اس حیوانیت کو روکنے کی تدبیر نہیں کر رہا۔
ہر واقعہ کے بعد میڈیا پر شور اُٹھتا ہے، بڑی بڑی باتیں کی جاتی ہیں، کچھ دن ہیڈ لائنز بنتی ہیں، سیاست دان بھی بیانات داغتے ہیں، حکومت عدلیہ وغیرہ بھی اس زبانی جمع خرچ میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوتا۔ چند دن بعد ایک نیا واقعہ رونما ہوجاتا ہے، سب کی توجہ نئے واقعہ کی طرف ہو جاتی ہے وہی بیان، وہی میڈیا کا تماشہ، وہی بیانات، وہی ڈائیلاگ دہرائے جاتے ہیں۔
ہر بار گرفتاریاں ہوتی ہیں، تہیہ کیا جاتا ہے کہ مجرموں کو عبرت ناک ساز دی جائے گی لیکن کوئی اُس بیماری کی طرف توجہ نہیں دیتا جو دیمک کی طرح اس معاشرہ کو کھوکھلا کر چکی۔ وہ بیماری حیوانیت ہے جو بحیثیت معاشرہ ہم میں تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے اور انسانیت ختم کرتی جا رہی ہے۔ تمام تر بیانات اور ڈائیلاگز کے باوجود آج تک کسی مجرم کو نہ تو عبرت ناک سزا دی گئی نہ ہی مثال بنایا گیا کیوں کہ یہاں انسانی حقوق والے اور لبرل میڈیا کے علمبردار سب سے بڑی رکاوٹ بن کر سامنے آ جاتے ہیں اور یوں حیوانیت کا دفاع کیا جاتا ہے، لیکن میں یہاں جس اہم نکتہ پر بات کرنا چاہ رہا ہوں وہ معاشرہ کی حیوانیت کا ہے کہ اس کے علاج کے لیے کوئی تدبیر کیوں نہیں کی جا رہی۔
میں لکھ لکھ کر بول بول کر تھک گیاہمارے معاشرہ کو تربیت اور کردار سازی کی اشد ضرورت ہے جس کے بغیر ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے ۔ اس کالم میں جن چند واقعات کا ذکر کیا وہ ہماری تباہی کے سفر کے اشارہ ہیں لیکن ہم انسانوں کے روپ میں حیوان پیدا کرتے جا رہے ہیں کیوں کہ افراد اور معاشرہ کی تربیت اور کردار سازی ہماری ترجیح میں شامل ہی نہیں۔ اس سلسلے میں ریاست، حکومت، سیاسی جماعتیں، عدلیہ اور میڈیا سب قصور وار ہیں۔ خدارا اب تو جاگ جائیں ۔ انسانیت کی اور کتنی تضحیک کرائیں گے۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔