افغانستان اور شنگھائی تعاون تنظیم کا بیسواں اجلاس

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو

افغانستان میں طالبان کے حکومتی انتظام سنبھالنے اور امریکا اور اتحادیوں کے مکمل انخلاء کے بعد خطے میں افغانستان کو پرامن اور مستحکم ملک بنانے کی کوششیں زور پکڑگئی ہیں۔

اس صورت میں شنگھائی تعاون تنظیم اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے ۔ دنیا کی نظریں 16 ستمبر کو دوشنبے میں ہونے والے شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبرممالک کے سربراہان اجلاس پرلگی ہوئی ہیں۔ چین ، روس، بھارت ، پاکستان ، وسط ایشیائی ممالک سمیت آٹھ ممالک اس تنظیم کے رکن ہیں ۔ 

اس اجلاس میں ایران کو تنظیم کا رکن بنانے پر اہم پیش رفت بھی متوقع ہے۔  تنظیم کی بیسویں سالگرہ اور اجلاس میں اہم ترین موضوع افغانستان میں تبدیلی کے بعد خطے کی مجموعی صورت حال اور آنے والی مشکلات کو دورکرنے کے لیے اقدامات پر بحث کی جانی ہے۔ اس اجلاس میں اقوام متحدہ کی طالبان پر عائد پابندیوں کے پیش نظر ان کی حکومت کو تسلیم کیے جانے کا معاملہ اہمیت اختیار کیے ہوئے ہے۔ 

اس تنظیم میں چین اور روس تنظیم کے دو اہم ترین اور بااثر ارکان ہیں ۔ میزبان ملک ازبکستان میں ہونے والے اجلاس میں یہ توقع کی جارہی ہے کہ تنظیم کی جانب سے افغان طالبان حکومت کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر کچھ سخت اقدامات کو نرم کرنے پر زور دیا جاسکتا ہے تاکہ مزید پیش رفت ہونے کی صورت میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا معاملہ دیکھا جاسکے۔ تاجکستان اور بھارت کی جانب سے طالبان حکومت کے معاملے پر تحفظات کا اظہار کیا جاسکتا ہے۔  

پاکستان اور ایران افغانستان کے اہم ترین پڑوسی ممالک ہیں ۔ دونوں ممالک پر افغانستان کی صورت حال کا براہ راست اثر پڑتا ہے۔  پاکستان افغانستان کی جنگ میں معمولی فائدے کے عوض سب سے زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں گزشتہ دور میں افغان حکومت کو مبصر کا درجہ دینے کے بعد اب طالبان حکومت کو یہ درجہ برقرار رکھنے کا معاملہ بھی اہم ہوگا۔ افغانستان کےاثرات وسط ایشیائی ممالک تاجکستان اور ازبکستان پر بھی ہیں ان دونوں ممالک کا موقف بھی افغانستان کی موجودہ قیادت پر خطے میں اعتماد حاصل کرنے کے لیے اہم ہوگا۔ چین کا افغانستان کے استحکام میں اہم کردار ہے کیونکہ بیلٹ روڈ انیشیٹو جیسا اہم منصوبہ خطے میں چین کے بین الاقوامی معاشی منصوبے کا اہم جز ہے۔

گو کہ روس کی افغانستان سے براہ راست قربت تو نہیں لیکن اس کے خطے میں مستقبل کے بڑے معاشی مفادات یقیناً افغانستان سے جڑے ہیں۔ ایشیائی امور کے ماہرین کہتے ہیں کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کےحالیہ صورت حال میں اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو محتاط رویے کے ساتھ یہ بات قدرے مشترک پائی جاتی ہے کہ افغانستان میں آنے والی طالبان حکومت کو کچھ وقت دیا جانا چاہیے اور انہیں بین الاقوامی سیاسی دھارے میں لانا چاہیے۔

ایس سی او کے اجلاس میں امریکا اور اتحادیو٘ں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں جاری بحران ، خطے میں سکیورٹی میکنزم، منشیات کی روک تھام، انسداد دہشت گردی اور انسانی امداد ایجنڈے میں شامل ہوگا۔  شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی افغانستان میں امن و استحکام اور طالبان حکومت کے معاملے پر اقدامات کے لیے مشترکہ طور پر آمادگی بڑی پیش رفت ہوگی۔

افغانستان میں امن و امان ، سیاسی اور معاشی استحکام کی صورت میں نہ صرف خطے میں سیاسی اور معاشی استحکام پیدا ہوگا بلکہ براعظم ایشیاء دنیا میں پرامن معاشی استحکام کی ضمانت بن جائے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔