Time 20 ستمبر ، 2021
بلاگ

دیرینہ خواہشوں سے سجایا گیا مجھے!

پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی ( پی ڈی ایم اے ) کے قیام کےلئے مجوزہ مسودہ قانون سامنے آنے پر میڈیا مالکان ، صحافی برادری اور میڈیا ورکرز کی طرف سے جو ردعمل آیا ہے۔ وہ توقع کے عین مطابق ہے لیکن اس بات کی توقع نہیں تھی کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے اس طرح کا مسودہ تیار کرکے ایک جمہوریت پسند سیاسی جماعت کے اپنے امیج کو داؤپر لگا دے گی۔

 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں‘ طلبا‘ نوجوانوں اور سول سوسائٹی کے وسیع تر احتجاج کے بعد یہ اچھا ہوا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ایک کمیٹی تشکیل دے دی ہے ، جس میں میڈیا اور حکومت کے نمائندے شامل ہیں ۔ یہ کمیٹی سب کےلئے ایک قابل قبول راستہ نکالنے کی سفارش کرے گی ۔ بہتر ہوتا کہ حکومت پہلے ہی فریقین کو اعتماد میں لے لیتی تو اتنا بڑا تنازعہ پیدا نہ ہوتا ۔

کسی بھی جمہوری اور تکثیریت پسند معاشرے کی تشکیل کے لئے آزاد میڈیا اور آزادی اظہار رائے کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ قیام پاکستان کے فورا بعد ہی ملک کی ہیئت مقتدرہ نے سیاست اور میڈیا کوکنٹرول کرنے کےلئےسیاہ قوانین بنائے ۔

 سیاست اور سیاست دانوں کو کمزور یا کنٹرول کرنے کےلئے پروڈا ، ایبڈو اور احتساب کے دیگر سیاہ قوانین رائج کئے گئے ۔ میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے ایوب خان کا بدنام زمانہ پریس اینڈ پبلی کیشن آرڈی ننس ( پی پی او) جاری کیا گیا ۔

 پروڈا اور ایبڈو کے ساتھ ساتھ پی پی او جیسے قوانین ہیئت مقتدرہ کے لئے وہ مسودہ ہائے قانون ہیں ، جنہیں ہر دور میں تھوڑی بہت تبدیلیوں کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن ان کی اصل روح برقرار رکھی گئی اور ان قوانین کے اغراض و مقاصد کو تبدیل نہیں ہونے دیا گیا ۔

موجودہ احتساب آرڈی ننس بھی ان سیاہ قوانین کا چربہ ہے ۔ ایوب خان کے بعد ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے بھی پی پی او کے چربہ قوانین نافذ کرنے کی کوشش کی ۔ کسی جمہوری حکومت نے اس طرح کی کوششیں نہیں کیں ، پاکستان میں کبھی بھی ایسی تر میم نہیں کی گئی جس طرح تحریک انصاف کی حکومت نے پی ڈی ایم اے آرڈی ننس کا مسودہ بنا کر کی ۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس نے ہر قسم کے میڈیا یعنی اخبارات و جرائد ، ٹیلی ویژن ، ریڈیو ، فلم اور ڈیجیٹل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے پی ڈی ایم اے کے نام سے ایک ہی ادارہ اور ایک ہی قانون بنانے کی تجویز دی ہے کیونکہ پہلے میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لئے الگ الگ ادارے اور قوانین تھے لیکن پی ڈی ایم اے آرڈی ننس کے مجوزہ مسودہ میں حکومت کو میڈیا کنٹرول کرنے کےلئے پی پی او سے بھی زیادہ اختیارات دیئے گئے ہیں ۔

 مسودہ قانون کے مطابق میڈیا ٹریبونلز قائم کئے جائیں گے ۔ ان ٹریبونلز میں ان میڈیا ہاؤسز ، مالکان اور صحافیوں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے ، جو حکومت کی دانست میں آرڈی ننس کی خلاف ورزی کریں گے یا جھوٹی خبریں چلائیں گے ۔ یہ فیصلہ ٹریبونلز میں بیٹھے حکومتی کارندے کریں گے کہ آرڈی ننس کی خلاف ورزی کیا ہے اور خبر جھوٹی ہے یا سچی ۔ ٹریبونلز جرمانے اور قید کی سزائیں سنا سکیں گے ۔

 ان یکطرفہ اختیارات پر صحافی ، انسانی حقوق کے کارکنان اور سیاسی جماعتیں ملک بھر میں سراپا احتجاج نظر آئے ۔ اس احتجاج نے بھی پاکستان میں آزادی صحافت کی موجودہ صورت حال پر دنیا میں تشویش کی لہر پیدا کر دی ۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسودہ قانون انتہائی رازداری میں بنایا گیا ، جس سے صحافتی ، سیاسی اور انسانی حقوق کے علمبردار حلقوں میں سخت تشویش پیدا ہوئی۔

بہت زیادہ احتجاج کی وجہ حکومت کا وہ سخت گیر اور پریشان کن رویہ بھی ہے ، جو اس نے میڈیا کے ساتھ اختیار کر رکھا ہے ۔ اس حکومت میں میڈیا پر جتنی پابندیاں لگائی گئی ہیں اور معاشی طور پر میڈیا کے لئےجتنی مشکلات پیدا کی گئیں ، ان کی مثال کسی بھی جمہوری حکومت میں نہیں ملتی ۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جنرل ضیاء الحق نے نیپا کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے میڈیا مالکان اور صحافیوں سے کہا تھا کہ اگروہ ٹھیک نہ ہوئے تو میں انہیں چھوٹی انگلی سے الٹا لٹکا دوں گا ۔ ضیاء الحق کے دور میں بھی سنسر شپ کے باوجود میڈیا کی یہ صورت حال نہیں تھی ، جو اس وقت ہے۔

پی ڈی ایم اے آرڈی ننس میں پی پی او کی اصل روح بہت بھیانک انداز میں موجود ہے ۔ سیاست کو کمزور کرنے کے لئے پروڈا اور ایبڈو کے ذریعہ آمرانہ حکومتیں وہ مقاصد حاصل نہ کرسکیں ، جو موجودہ نیب آرڈی ننس کے ذریعے موجودہ حکومت میں حاصل کئےگئے۔

 پاکستان میں سیاست اس وقت بہت کمزور ہے اور سیاسی جماعت سمجھوتے کے لئے کوشاں ہے عوا م میں ان کی کوئی پذیرائی نہیں لیکن پی ڈی ایم اے آرڈی ننس کے مسودے پر صحافیوں نے اپنی انتہائی مشکلات کے باوجود جو احتجاج کیا ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ماضی کی طرح اب بھی نہ صرف آزادی صحافت اور آزادیٔ اظہار رائے کا تحفظ کر سکتے ہیں بلکہ سیاسی آزادیوں کے لئے بھی ہر اول دستے کا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔

 اس وقت پاکستان میں میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کی آمرانہ قوتوں کی پرانی خواہشوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی ۔ نئی ریگولیٹری باڈی میں حکومت کو سارے اختیارات دینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ آزاد ریگولیٹری اتھارٹی ہو ، جو آزادی اظہار رائے کا تحفظ کرے ۔

 صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے روزگار اور حقوق کا تحفظ کرے کیونکہ اس کے بغیر آزادی صحافت ممکن نہیں ۔ صحافیوں کو کنٹرول کرنے اور غیر جمہوری طاقتوں کی ایڈوائزری پر عمل کرانے کا سلسلہ نہیں چاہئے ۔ مذکورہ بالا آزادی ریگولیٹری اتھارٹی کی تشکیل کے لئے قائم کردہ کمیٹی کی سفارشات مرتب کرنی چاہئیں ۔ ضروری ہے کہ کمیٹی پر کوئی دباو بھی نہ ڈالا جائے ۔ پی ڈی ایم اے آرڈی ننس کے مجوزہ مسودے پر ایک شعر کا یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ ’’ دیرینہ خواہشوں سے سجایا گیا مجھے ‘‘ ۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔