20 ستمبر ، 2021
چند دن پہلے وزیر تعلیم شفقت محمود صاحب سے میری بات ہوئی ۔ میں نے کہا، مجھے اب آپ پر اعتبار نہیں رہا۔ جس قسم کی وزارت تعلیم میں آپ نے حالیہ تعیناتی کی اُس کے تناظر میں آپ پرسے میر اعتبار اُٹھ گیا ہے اور اب میں حکومت کے اس وعدہ پر شوک و شبہات کا شکار ہو گیا ہوں کہ وہ قومی نصاب کو اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسا بنائے گی کہ ہم اپنے بچوں کو دین اور دنیا دونوں پڑھاسکیں گے تاکہ وہ بہترین پروفیشنل بننے کے ساتھ ساتھ اچھے انسان اور اچھے مسلمان بھی بن سکیں، جنہیں اپنی اسلامی روایات اور اپنے اسلامی ہیروز پر فخر ہو۔
شفقت محمود صاحب کا کہنا تھا کہ اس تعیناتی کا تعلق نصاب سے نہیں ہے‘ جس پر میں نے اُن سے گزارش کی کہ وزارت میں آپ کے مقرر کردہ ایڈوائزر جو ٹی وی چینلز پر آپ ہی کے نصاب کے بارے میں جس قسم کی باتیں کر رہے ہیں وہ سنیں تو پھر کوئی کیسے اس بات پر اعتبار کر سکتا ہے کہ جو حکومت اپنی تقریروں میں کہتی ہے‘ وہ درست ہے؟
مجھے نہیں معلوم کہ اس معاملہ میں وزیر اعظم کو اعتماد میں لیا گیا ہے یانہیں اور اگر اس تعیناتی کی منظوری وزیر اعظم سے لی گئی تو کیا اُنہیں بتایا گیا کہ متعلقہ فرد کے حکومت کے مرتب کردہ تعلیمی نصاب کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟ میرا نصاب کے متعلق کسی فرد کی ذاتی رائے سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن اگر وزارت تعلیم میں ایسے افراد کو بھرتی کر لیا جائے جن کی نصاب میں شامل اسلامی حصہ کے متعلق رائے انتہائی متعصب ہو تو پھر ایسے معاملہ کو ignore نہیں کیا جانا چاہیے۔
جب وزارت کا اپنا ایڈوائزر یہ کہے کہ وزارت تعلیم میں بھی احساس پیدا ہو چکا ہے کہ نصاب کو revision کی ضرورت ہے تو پھر معاملہ مزید مشکوک بن جاتا ہے۔ ایک مخصوص طبقہ کا اس نصاب کی مخالفت میں سارا فوکس نصاب کے اسلامی حصہ پر ہے جس کا میں نے اپنے گزشتہ کالم ’’ﷲ خیر کرے!‘‘ میں اُنہی کی زبانی ذکر کیا۔
ماضی میں شفقت محمود صاحب سے جب بھی بات ہوئی تو اُنہیں اس مخصوص طبقہ کی سوچ پر ہمیشہ افسوس کرتے پایا لیکن نجانے اب کیا ہو گیا۔ حال ہی میں وزیر اعظم عمران خان نے بھی ٹی وی پر دکھائی جانے والی ایک تقریب سے خطاب کے دوران شفقت محمود کا نام لیتے ہوئے اُنہیں کہا کہ سیرت النبی ﷺ کو قومی نصاب میں آٹھویں، نویں اور دسویں جماعت میں شامل کرنے میں کیوں دیر کی جا رہی ہے۔ وزیر اعظم نے وزیر تعلیم کو ہدایت دی کہ وہ اس کام کو چھ ماہ کے اندر مکمل کریں۔ حکومت نے جو نصاب تیار کیا اُس کی مخالفت میں ایک طبقہ نے طرح طرح کے جھوٹ گھڑے۔کبھی نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے کی بات کی تو کبھی کہا کہ علماء بورڈ سائنس کی کتاب میں موجود انسانی جسم کی ساخت پر اعتراض اُٹھا رہے ہیں اور یہ بھی کہ علماء سے پورے نصاب کا ریویو کروایا جا رہا ہے۔
یہ سب جھوٹ اور پروپیگنڈہ تھا۔ نیوٹن کو دوپٹہ پہنانے کے پروپیگنڈہ کے متعلق پنجاب کے ٹیکسٹ بک بورڈ کے ایم ڈی نے مجھ سے بات کرتے ہوے اسے مکمل جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ جو کوئی یہ بات کرتا ہے اُسے کہیں کوئی کتاب دکھا دو، کسی پبلشر کا نام دے دو، کوئی اور سرکاری دستاویز سامنے لاؤ۔ علماء بورڈ کے متعلق بولے گئے جھوٹ کی نفی وزیر اعظم کے مشیر مولانا طاہر اشرفی نے ایک پریس کانفرنس میں خود کی اور بتایا کہ قانون کے تحت پنجاب میں قائم علماء بورڈ صرف اسلامی مواد کو دیکھتا ہے، یاد رہے نصاب کا علماء کی طرف سے جائزہ لینے کی بات میں کوئی سچائی نہیں۔
اگر کسی کو مسئلہ اسلام سے ہے اور نصاب میں موجود اسلامی مواد سے ہے تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں۔ میں نے وزیر اعظم عمران خان کو بار ہا قومی تعلیمی نصاب کو جدید علوم کے ساتھ ساتھ اسلامی بنانے کا عہد کرتے ہوے دیکھا اور اسی وجہ سے اُنہیں سپورٹ بھی کیا، اُن کی تعریف بھی کی۔ میرا گمان ہے کہ وزیر اعظم اس معاملہ میں مخلص ہیں جبکہ مجھے ایک صاحب نے کہا کہ یہ میرا حسنِ ظن ہے جس پر مجھے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔ میں دوسروں کے دلوں کا حال نہیں جانتا، کوئی اچھی بات کرے گا تو اُس کی تعریف کروں گا، کوئی غلط بات کرے گا تو اُس پر بھی اپنے ضمیر کے مطابق خلوص کے ساتھ رائے دوں گا۔
میری شفقت محمود صاحب سے بھی بات ہوتی رہی اور اُن کی ماضی کی سیکولر سوچ کے برعکس اُنہیں نصاب میں شامل کیے جانے والے اسلامی حصہ کا ہمیشہ دفاع کرتے ہوے پایا اور اسی بنا پر اُن کی بھی تعریف کی۔ لیکن نہیں معلوم اب یہ فیصلہ اُنہوں نے کیسے، کیوں اور کس کے پریشر میں کیا۔
میری وزیر عمران خان سے درخواست ہے کہ اس معاملہ کو خود دیکھیں کہ ایسا نہ ہو کہ آپ کے ساتھ کوئی دھوکہ ہو جائے۔ یہ دھوکہ عوام کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اگر وزیر اعظم کی اسلامی نصاب کے متعلق باتوں پر میرے اعتبار کو میرا حسن حسن کہنے والے صاحب کی بات درست ثابت ہو گئی تو؟
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔