Time 04 اکتوبر ، 2021
بلاگ

عمران خان پریشان کیوں؟

وزیر اعظم عمران خان ان دنوں کافی پریشان ہیں۔ یہ بات پہلے مجھے چند علمائے کرام سے معلوم ہوئی جنہوں نے وزیر اعظم کے حالیہ دورۂ کراچی کے دوران اُن سے ملاقات کی۔ بعد میں گزشتہ ہفتہ کے دوران اسلام آباد میں اپنی اسی پریشانی کے حوالے سے وزیر اعظم نے دو اجلاسوں میں شرکت کی۔ 

پریشانی کا تعلق ملک کی معیشت اور سیاست سے نہیں ہے بلکہ روز بروز بڑھتے معاشرتی بگاڑ سے ہے جس کے نئے نئے ڈراؤنے روپ ہمارے سامنے آ رہے ہیں اور جس کی وجہ سے معاشرہ بڑی تیزی سے تنزلی کا شکار ہو رہا ہے ۔ وزیر اعظم کی اس پریشانی سے ممکنہ طور پر ایک اچھا کام ہونے جا رہا ہے جس کی اس معاشرے کو اشد ضرورت ہے اور وہ ہے تربیت اور کردار سازی۔

 مجھے بتایا گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ ہفتے اسی موضوع پر دو اجلاس کیے جن میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ معاشرےکی تربیت اور کردار سازی کے لیے جنگی بنیادوں پر تمام ممکنہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم بارہ ربیع الاول کے روز ایک نیا محکمہ یااتھارٹی بنانے کا اعلان کرسکتے ہیں جس کا مقصد معاشرے کی کردار سازی اور تربیت کے لیےپالیسی بنانااور اُس پالیسی پر عملدرآمد کروانا ہو گا تاکہ ہم ملک میں بڑھتی ہوئی معاشرتی خرابیوں اور برائیوں سے اسے پاک کر سکیں۔ 

صرف سزاؤں سے کام نہیں چلے گا اور بغیر تربیت تعلیم بھی کسی کام کی نہیں‘ اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اسکولوں و کالجوں میں تعلیم کی فراہمی کے ساتھ ساتھ تربیت اور کردار سازی پر بھی غیرمعمولی توجہ دی جائے بلکہ میڈیا، مسجد و منبر، سول سوسائٹی اور دوسرے ذرائع کو معاشرے کو بہتر بنانے اور برائیوں کو روکنے کی جدوجہد کے لیے کردار ادا کرنے کے لیے کہا جائے گا۔ 

والدین کو اپنے بچوں کی بہترین تربیت کرنے کی اُن کی ذمہ داری یاد دلائی جائے۔ تربیت کیسے کی جائے، کردار سازی کے لیے کیا میکنزم اپنائے جائیں اس کے لیے بنیادی ذمہ داری نئی اتھارٹی کو سونپی جائے گی۔ ہماری جو اس وقت حالت ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔

 ہم کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن ہمارے اعمال درست نہیں۔ جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی، ملاوٹ، رشوت، سفارش یا کسی بھی دوسری خرابی اور برائی کا نام لیں وہ یہاں ہر طرف ہر شعبہ میں پھیل چکی ہیں، عورتوں سے بدسلوکی اور ریپ کے بڑھتے ہوئے واقعات، بچوں سے زیادتی اور قتل جیسے گھناونے جرائم ہیں کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہے۔ بڑھتی فحاشی و عریانیت نے معاشرتی برائیوں کواوربڑھادیا ہے۔

میں ایک عرصہ سے تربیت اور کردار سازی کی ضرورت پر زور دے رہا ہوں اور سمجھتا ہوں کہ یہ وہ معاملہ ہے جس پر توجہ دی گئی تو ہم ہر میدان میں کامیاب ہو جائیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر تباہی سے ہمیں کوئی نہیں بچا سکتا۔ لیکن نہ کسی سیاستدان نے اس پر کان دھرا نہ میڈیا نے اس طرف توجہ دی۔ 

مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وزیر اعظم عمران خان کی توجہ اس اہم ترین مسئلہ کی طرف مبذول ہوئی اور اسی وجہ سے وہ پریشان اور فکر مند ہیں جس کا اظہار انہوں نے کراچی میں علما کے ساتھ ایک میٹنگ میں بھی کیا اور علماء سے تجاویز بھی مانگیں کہ اُن کے خیال میں کس طرح معاشرے کو اچھائی کی طرف لے جایا جائے اور برائیوں سے روکا جائے؟

 وزیر اعظم اگر اس بارے میں فکر مند اور پریشان ہیں تو اس پر مجھے خوشی ہوئی۔ اس فکر اور اس پریشانی سے ہی مسئلے کا کوئی حل نکلے گا۔ اچھا ہو کہ ہماری پارلیمان اور سیاسی رہنما اس مسئلہ پر بات کریں اور یہ فکر کریں کہ اگر ہم نے اپنی معاشرتی برائیوں اور خرابیوں کو دور نہ کیا تو ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

 ہم کیسے لوگ ہیں کہ یہاں علاج جعلی، یہاں دوائیاں دو نمبر، یہاں پل، سڑکیں اور عمارتیں خراب مال سے بنائی جاتی ہیں، عدالتوں پر اعتبار نہیں، پولیس پر بھروسہ نہیں، سرکاری دفاتر میں کوئی جائز کام بھی رشوت اور سفارش کے بغیر نہیں ہوتا۔

 ہم چاہے سرکاری شعبہ میں ہوں یا نجی شعبہ میں، اپنے چھوٹے چھوٹے ذاتی فائدوں کے لیے جھوٹ بولنے اورفراڈکرنے سے باز نہیں آتے، اپنے چھوٹے سے نفع کے لیے دوسروں اور قوم کا بڑے سے بڑا نقصان بھی کر لیتے ہیں، یہاں تک کہ دوسروں کی جان بھی لے لیتے ہیں۔ رشتوں کے آپس میں کیا حقوق و فرائض ہیں، معاشرتی تعلقات کی نوعیت کیا ہونی چاہیے اور ہے کیا؟ جس طرف دیکھیں خرابی ہی خرابی۔

میری دعا ہے کہ وزیر اعظم کی اس پریشانی سے قوم اور معاشرے کے لیے کوئی اچھا حل نکلے اور تربیت اور کردار سازی کا کوئی مربوط اور مستقل سلسلہ شروع ہو سکے تاکہ ہم اچھے مسلمان اور اچھے انسان بن سکیں اور ہمارا معاشرہ ایک اچھا معاشرہ بن کر اُبھرے۔

 ابھی تک ہمارا زور صرف نئے سے نئے قانون بنانے پر ہی رہا جبکہ اصل علاج یعنی تربیت اور کردار سازی کی طرف ہم نے توجہ ہی نہ دی اور اسی وجہ سے ہم آج ایسی قوم بن گئے ہیں کہ اپنے آپ کو دیکھ کر پریشانی ہی پریشانی ہوتی ہے اور بندہ سوچتا ہے ہمارا کیا بنے گا۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔