بلاگ
Time 05 اکتوبر ، 2021

پانامہ سے پنڈورا تک

قارئین کو یاد ہوگا کہ کچھ عرصہ قبل اسی طرح کا شور وغلغلہ پانامہ پیپرز کا اٹھا تھا جیسے اب پنڈورا پیپرز پر اٹھ رہا ہے۔ اس وقت بھی یہ اعلان ہوا تھا کہ پانامہ پیپرز میں جن پاکستانیوں کے نام ہیں ان کی تحقیقات ہوں گی اور ناجائز طریقہ سے دولت اکٹھی کرکے آف شور کمپنیوں کی آڑ میں چھپانے اور منی لانڈرنگ کرنیوالوں کے خلاف سخت کارروائی ہوگی۔ 

پانامہ پیپرز میں چار سو سے زائد پاکستانیوں کے نام تھے لیکن تحقیقات کے لئے قرعہ صرف نواز شریف کے نام نکالا گیا جو بعد از تحقیقات شاید ثابت نہ ہوسکا تو پانامہ کے بجائے اقامہ میں دھر لئے گئے۔ بعد میں اب تک جو کچھ ان کے ساتھ ہوا اور جو ہورہا ہے وہ سب کو معلوم ہے۔

چار سو سے زائد باقی افراد کے خلاف کیاکارروائی ہونی تھی کہ کچھ خاص تحقیقات ہی نہ ہوئیں۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہوسکتی ہے کہ حکومت وقت نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف تحقیقات میں اتنی مصروف ہوگئی کہ باقی لوگوں کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کے لئے وقت ہی نہیں ملا۔

پھر آہستہ آہستہ وہ پیپرز قوم کی نظروں سے اوجھل ہوگئے اور یوں بات آئی گئی ہوگئی۔ اس ضمن میں ان دنوں خواجہ آصف سے ایک بات منسوب کی گئی تھی جو شاید درست بھی تھی کہ میاں صاحب فکر نہ کریں قوم جلد یہ سب کچھ بھول جائے گی اور یوں خواجہ آصف کی آدھی بات سچ ثابت ہوئی۔ آدھی بات اس لئے کہ جن کو انہوں نے مخاطب کرکے یہ بات کی تھی وہ توپانامہ کے منجدھار میں پھنس گئے اور آدھی سچ اس لئے ثابت ہوئی کہ قوم تو کیا حکومت بھی بھول گئی۔

کہا جاتا ہے کہ ایک دیہاتی کسی میلے میں گیا وہاں اس کا رومال جو اکثر لوگ کندھے پرڈال کررکھتے ہیں، گم ہوگیا۔جب وہ واپس اپنے گاؤں پہنچا تو لوگوں نے اس سے میلہ کے بارے میں دریافت کیا تواس نے کہا چھوڑیں جی میلہ کچھ بھی نہیں تھا یہ سب تماشہ میرے رومال کے لئے رچایا گیاتھا۔ 

مسلم لیگ(ن) اور شریف خاندان کا بھی پانامہ کے بارے میں شاید وہی مؤقف ہے۔ کیونکہ چارسو سے زائد افراد میں صرف ان ہی چند کو نامزد کیاگیا۔حالانکہ پانامہ پیپرز میں446افراد کے نام تھے جو 2016میں سامنے آئے تھے۔

 اگر ان تمام افراد کے بارے میں تحقیقات واحتساب ہوجاتا تو اور کچھ نہیں کم ازکم ٹیکس ریکوریز میں تونمایاں بہتری آسکتی تھی۔ اب پنڈورا پیپرز آگئےہیں، جن میں پانامہ کے مقابلے میں زیادہ پاکستانیوں کے نام ہیں۔ پنڈورا پیپرز میں تقریباً700پاکستانیوں کے نام ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کانام ان میں شامل نہیں ہے۔

انہوں نے ان پیپرز کے منظر عام پر آنے کے بعد اپنے ایک ٹویٹ میں پنڈورا پیپرز کا خیرمقدم کیا اور کہا ہے کہ ان افراد کے خلاف بلا امتیاز تحقیقات ہونگی۔ جنہوں نے ناجائز طریقوں سے دولت اکھٹی کرکے غیر قانونی طریقوں سے آف شورکمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک منتقل کی ہے اور ان کے خلاف سخت کارر وائیاں ہونگی۔

 اس وعدے کی صداقت کب سامنے آتی ہے اس کے لئے طویل عرصہ درکار ہوگا۔ ان تحقیقات پر اس غریب قوم کی مزید کتنی رقم خرچ ہوگی اور بعد ازتحقیقات کتنے لوگوں کے خلاف کیا کارروائی ہوگی یہ کہنا بھی قبل از وقت ہے۔ 

لیکن اصل بات یہ ہے کہ کیا پہلے والے حکومتی دعوؤں کی طرح ان تحقیقات کا حاصل وصول بھی اسی طرح ہوگا؟ کیا شریف خاندان اورآصف علی زرداری سے ریکوریز ہوئیں اوریہ کہ ان کے خلاف تحقیقات اور کیسز پرکتنے اخراجات ہوئے جواب بھی جاری ہیں۔ یہ کسی کو بھی شاید نہیں معلوم۔

میں نے پہلے ایک کالم میں علم الاعداد کے حوالہ سے عرض کیا تھا کہ آنیوالے دنوں میں نہ صرف مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوگا بلکہ حکومت کے لئے نئی مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ ان مشکلات میں ایک اہم مشکل اب پنڈورا پیپرز کی صورت میں سامنے آئی ہے۔ اب حکومت کےلئے پیچھے سانپ اور سامنے کھائی والی صورت حال ہے۔ کیونکہ ان پیپرز میں کچھ اہم حکومتی افراد کے بھی نام ہیں اور کچھ اہم کاروباری افراد بھی ہیں۔ اگرچہ ابھی مزید تفصیلات آئیں گی۔

 اب مشکل یہ ہے کہ حکومت اگر ان افراد کے خلاف تحقیقات اور کارروائی کا آغاز کرتی ہے تو حکومت کی بقا مشکل میں پڑ سکتی ہے کیونکہ ان میں بعض افراد اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کے پارلیمنٹ اور صوبوں میں گروپس ہیں جو بہت مضبوط ہیں۔ 

اور اگر حسب سابق حکومت ان لوگوں سے چشم پوشی اختیار کرتی ہے تو یہ امر تحریک انصاف کے لئے بہت نقصان کا باعث ہوسکتا ہے۔ اگر چہ پنڈورا پیپرز کے اس امتحان کے بعد بھی ابھی مزید امتحانات آسکتے ہیں۔ جن کی وجہ سے صورتحال یکسر مختلف صورت اختیار کرسکتی ہے۔ قوم بھولے یا نہ بھولے حکومت شاید پنڈورا پیپرز بھول ہی جائے۔

ویسے بھی پانامہ ہو، پنڈورا ہو یا کرپشن اور وائٹ کالر کرائمز یہ وہ کنوئیں ہیں کہ بس کھودتے جائیں گہرائی اور مزید گہرائی تک، پیسے خرچ کرتے جائیں لیکن ان کنوؤں سے پانی نکلنا بہت مشکل کام ہے اور اگر تھوڑا پانی نکل کر پھر خشک ہوجائے تو فائدہ کیا۔ اور ایسی لاحاصل محنت پر قوم کا پیسہ ضائع کرنا کیا دانشمندی ہے؟۔

 ہوسکتا ہے کہ اس وقت بعض جذباتی احباب میرے اس خیال کو خیالِ خام سمجھیں لیکن آنیوالے وقت میں پنڈورا پیپرز کو بھی پانامہ پیپرز کی طرح صرف احتساب کیلئے بطور حوالہ پیش کیا کریں گے۔ یہ تب ممکن ہوگا کہ جب موجودہ نظام تبدیل ہوگا اور ایسی حکومت ہوگی جو کسی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی کی محتاج نہ ہو۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔