11 اکتوبر ، 2021
پاکستان کے ہیرو، پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے، ایک بڑے آدمی اور ایک قابلِ فخر مسلمان ڈاکٹر عبدالقدیر خان انتقال فرما گئے۔ اللہ تعالی مرحوم کی مغفرت فرما کر اُنہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام نصیب فرمائے، آمین۔
پاکستان نے یقیناً بہت ہیروز پیدا کیے کسی نے اپنی جان اس ملک کے لیے نچھاور کی، کسی نے اپنے زندگی خدمت خلق میں گزار دی، کوئی دہشت گردی اور دشمنوں سے لڑتے لڑتے شہید ہو گیا تو کسی نے اپنی زندگی اسلام کی خدمت اور تبلیغ میں گزار دی لیکن ڈاکٹر صاحب ان قومی ہیروز میں نمایاں رہے کیوں کہ اُنہوں نے اسلام کے نام پر بننے والے ملک پاکستان کو اسلامی بم دے کراس کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا۔
پاکستان کے ایٹم بم کی جب ذولفقار علی بھٹو مرحوم نے بنیاد رکھی تو اُس وقت اُنہوں (بھٹو صاحب) نے بھی ملتان میں ایٹمی سائنسدانوں سے بات کرتے ہوئے اسلامی بم کی ہی بات کی تھی۔ جب 1998 میں نواز شریف کے دور میں پاکستان نے ایٹمی دھماکے کیے تو اُس وقت بھی پوری دنیا نے پاکستان کے ایٹم کو اسلامی بم کا نام دیا۔
جس ہیرو نے دن رات کام کر کے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ہمارے اس بم کو حقیقت بنایا وہ بھی ایک اسلامی ذہن رکھنے والے ڈاکٹر قدیر خان ہی تھے۔ ڈاکٹر صاحب سے کبھی کبھار بات ہوتی تو اچھا لگتا۔ حال ہی میں جب اُن سے بات ہوئی تو وہ کورونا کا شکار تھے۔ اُن دنوں میں‘ مری میں تھا۔ میں نے طبیعت کا پوچھا تو کہا کہ بہتر ہیں اور کوئی خطرناک علامات نہیں۔
میں نے ڈاکٹر صاحب سے کہا کہ جب اسلام آباد آؤں گا تو ملنے کے لئے حاضر ہوں گا، انہوں نے کہا ،ضرور آئیے گا بس دس بارہ دن گزر لینے دیں تاکہ کورونا کی منفی رپورٹ آجائے لیکن بعد میں اُن کی حالت بگڑ گئی اور اُنہیں ہسپتال داخل ہونا پڑا۔ اُس دوران اُن کی موت کی افواہ بھی پھیل گئی جس پر ڈاکٹر صاحب نے ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے کہا کہ وہ اب بہتر ہیں۔ ایسی افواہوں کے پھیلانے والوں کے بارے میں اُنہوں نے ناراضی کا اظہار کیا۔ وہ بیماری کے بعد گھر لوٹے تو جب بھی اُن کے نمبر پر فون کیا یا تو ملا نہیں یا کوئی جواب نہ آیا۔
ڈاکٹر صاحب اس بات پر بہت دکھی تھے کہ کیسے امریکا کے دباؤ میں آ کر جنرل مشرف نے ٹی وی چینل پر لا کر پاکستان کے اس ہیرو سے ایٹمی پروگرام کے secrets کو بیرون ملک شئیر کرنے کا ـ’’اعتراف‘‘ کروایا تھا۔ جب بات ہوتی تو اس کا حوالہ دیتے اور بتاتے کیسے اُن پر دباؤ ڈال کر ایسا کروایا گیا۔
میں ہمیشہ سوچتا ڈاکٹر صاحب ، ایسا کیوں سوچتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ بیرونی دباؤ کے باعث یہ سب کروایا گیا۔ ڈاکٹر قدیر پاکستان کے ہیرو تھے، ہیرو ہیں اور ہیرو رہیں گے۔ اُن کو نظربندی کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن وہ نہ صرف پاکستان کے محسن بلکہ پوری اسلامی دنیا کے لیے بھی اپنے کارنامہ کی وجہ سے قابل احترام تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو اکثر لوگ father of Pakistan's atom bomb کے طور پر جانتے تھے لیکن وہ ایک بہترین مسلمان ہی نہیں بلکہ اسلام پسند تھے۔ وہ کافی عرصے سے اخبارات کے لیے کالم لکھتے تھے۔ کئی سال سے جنگ سے وابستہ تھے۔ اُن کے کالم پڑھنے والوں کو معلوم ہے کہ وہ ایک سچے اور پکے مسلمان ہی نہیں بلکہ ایک اسلام پسند تھے جو پاکستان میں اسلام کے نفاذ کے خواہش مند تھے۔
میں اُن خوش قسمت افراد میں شامل تھا جن کو ڈاکٹر صاحب صبح صبح گاہے گاہے دعائیں بھیجتے رہتے اور اس کے علاوہ بھی messages کرتے رہتے۔ وہ مجھے اسلامی پیغامات بھی بھیجتے۔ ابھی میں اُن کے messages دیکھ رہا تھا تو اُنہوں نے ایک اہم انٹیلیجنس ایجنسی کے ایک سابق چیف کا پیغام مجھے فارورڈ کیا جس میں لکھا تھا کہ میں اپنے تمام دوستوں اور جاننے والوں کو یہ بتاتا ہوں کہ ہمارا پاکستان اور ہم بحیثیت جوہری طاقت دنیا بھر میں جس status کو enjoy کر رہے ہیں اُس کے ہیرو ڈاکٹر قدیر خان ہیں، ڈاکٹر صاحب آپ ہمارے ہیرو ہیں ہمارے محسن ہیں، اگر آپ پاکستان کو ایٹم بم نہ دیتے ہم کہیں کے نہ ہوتےتوہم بغیر لڑے اپنے دشمنوں پر حاوی ہیں، اللہ تعالی ڈاکٹر صاحب آپ پر اپنی رحمتوں کی بارش فرمائے۔
ڈاکٹر صاحب کے فارورڈ کیے گئے پیغام پر میں نے بھی جواب میں ڈاکٹر صاحب کو یہی لکھ کر بھیجا کہ یقیناً جو کچھ آپ نے پاکستان اور اس کے لوگوں کے لیے کیا اُس بنا پر آپ ہمارے ہیرو ہیں۔ کچھ عرصہ بعد ڈاکٹر صاحب کا ایک پیغام ملا جس میں اُنہوں نے یہ لکھا تھا:
’’اے زندگی اور موت کافیصلہ کرنے والے، اے فرشتوں کے معبود، اے عزت اور ذلت کے مالک، اے بیماروں کو شفا دینے والے، اے اللہ ہم تیرے گنہگار بندے ہیں، تیرے خطا کار بندے ہیں، ہمارے گناہوں کو معاف فرما، ہماری خطاؤں سے درگزر فرما۔ آمین۔‘‘
قوم کے ہیرو، محسن پاکستان کی موت کی خبر نے رُلا دیا!
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔