18 اکتوبر ، 2021
ن لیگ کے نواز شریف، مریم نواز گروپ نے اپنی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی کر دی ہے ۔ اس حکمت عملی کے مطابق باقی سب تو خاموش ہیں لیکن مریم نواز کی طرف سے موجودہ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض کو کھلے عالم نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اس حکمت عملی کے تحت اب اسٹیبلشمنٹ کے کسی دوسرے فرد کا نام بھی نہیں لیا جا رہا بلکہ نواز شریف کی سپریم کورٹ کے ذریعے نااہلی، وزارت عظمی سے نکالے جانے، پاناما کیس اور اس کے نتیجے میں عدلیہ کی طرف سے میاں صاحب اور مریم کو دی جانے والی سزائوں اور پھر الیکشن سے پہلے مبینہ پولیٹیکل انجینئرنگ ہر چیز کا ذمہ دار صرف ایک ہی شخص کو ٹھہرایا جا رہا ہے جس کا وہ بار بار نام بھی لے رہی ہیں اور ایک نیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ یہی فرد عمران خان کو لانے اور تمام خرابیوں کی جڑ ہے۔
پہلے تو اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن کے ذریعے جنرل فیض کا نام لے کر اپنے تمام الزامات کو عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنایا اور پھر دوسرے یا تیسرے دن میڈیا سے بات کرتے ہوئے اپنی پٹیشن میں لگائے گئے ان الزامات کو دہرایا بلکہ اُس سے بھی زیادہ کھل کرباتیں کیں جو تقریباً تمام ٹی وی چینلز پر چل بھی گئیں۔
یہی نہیں اب گزشتہ (ہفتہ کی)رات کو فیصل آباد میں پی ڈی ایم کے جلسہ میں ایک بار پھر مریم نواز نے ڈی جی آئی ایس آئی کو اپنے نشانہ پر رکھا ۔ عمران خان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے، اُنہیں ایک منتخب شدہ وزیر اعظم نہ مانتے ہوئے مریم نواز نے فوج اور اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے صرف اور صرف جنرل فیض کا حوالہ دے کر بار بار یہ دہرایا کہ اس سب کی ذمہ داری اُسی ایک فرد پر ہے۔
اسی جلسہ میں اسٹیج پر سے جنرل فیض استعفی دو کے نعرے بھی لگوائے گئے اور پھر آج اس مطالبہ کو ن لیگ کے سوشل میڈیا نے ٹاپ ٹویٹر ٹرینڈز میں شامل کر لیا۔ پہلے میاں صاحب اور مریم آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی دونوں کو تمام تر خرابیوں، اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، عمران خان کو اقتدار میں لانے اور ن لیگ کو ہرانے کا ذمہ داری ٹھہراتے رہے لیکن اس کے نتیجے میں ن لیگ کے خلاف بالعموم اور نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف بالخصوص شدید ردعمل محسوس کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ نواز شریف اور مریم نواز نے فوج کے ادارے کو ہی نشانہ پر رکھ لیا!
دونوں باپ بیٹی کے متعلق دفاعی ادارے میں انتہائی منفی تاثر زور پکڑ گیا۔ اگرچہ نواز شریف اور مریم نواز کی اس پالیسی سے ن لیگ کے کئی رہنما بشمول شہاز شریف متفق نہ تھے لیکن ذرائع کے مطابق نواز شریف نے بھی یہ محسوس کیا کہ فوجی قیادت کے دو انتہائی اہم افسران کا نام لے لے کر اُنہیں نشانہ بنانے کی پالیسی کا شاید پارٹی کو فائدے سے زیادہ نقصان ہو۔ شاید اسی وجہ سے اب ایک نیا بیانیہ بنایا جارہا ہے جس کا نشانہ صرف اور صرف جنرل فیض ہیں جو کہ عمران خان کے ممکنہ آئندہ سال تعینات ہونے والے نئے آرمی چیف ہو سکتے ہیں۔
اس نئے بیانیہ کا واضح مقصد یہ ہے کہ جنرل فیض کو اتنا متنازعہ بنا دو اور باربار عوامی سطح پر اُن کے خلاف بات کرو کہ اُن کا اگلا آرمی چیف بننے کا چانس ہی باقی نہ رہے۔ ن لیگ کو اس بات کا پتا ہے کہ جنرل فیض پر جو جو الزمات لگائے وہ اُس وقت کے ہیں جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ نہیں بلکہ سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔ یعنی اُن پر جو جو کچھ غلط کرنے کا الزام ہے اگر وہ سب اُنہوں نے کیا تو آیا خود سے کیا یا کسی کے حکم پر کیا؟ اگلے سال نومبر میں موجودہ آرمی چیف اپنی ایکسٹینشن کے تین سال پورے کر لیں گے۔ اُس وقت تک کیا ہوتا ہے اس بارے میں کچھ بھی حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہو گا کیوں کہ یہاں تو دنوں میں سب کچھ بدل جاتا ہے۔
ن لیگ کے نئے بنائے جانے والے بیانیہ کو وزیراعظم عمران خان کی طرف سے فوج میں حالیہ تبدیلیوں کے نوٹیفیکیشن روکنے کی وجہ سے پیدا ہونے والے تنازعہ سے تقویت ملی۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت کے اپنے نمائندوں نے ٹی وی چینلز پر آ کراور کہہ کر پوری کر دی کہ عمران خان جنرل فیض کو ابھی آئی ایس آئی سے کہیں اور بھیجنے کے لیے تیار نہ تھے۔ اپوزیشن خصوصاً ن لیگ اور مریم نواز نے اس بات کو بھی خوب اچھالا جس سے ایک تو عمران خان پر تنقید کی کہ وہ فوج کے ادارے کو سیاست زدہ کرنا چاہتے ہیں اور دوسرا جنرل فیض کو نہ ہٹانے کی بات کو سیاست سے جوڑا۔
حکومت کی طرف سے جنرل فیض کو چند ماہ تک اسی ادارہ میں رکھنے کی وجہ افغانستان کی صورتحال کے تناظر میں کی گئی۔ یہ بات سامنے آ چکی اور میری بھی یہ اطلاعات ہیں کہ جنرل فیض خود بھی آئی ایس آئی میں مزید نہیں رہنا چاہتے اور آئی ایس پی آر کے نوٹیفیکیشن کے مطابق جلد از جلد پشاور کور کو سنبھالنا چاہتے ہیں۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ وزیر اعظم جنہوں نے نوٹیفیکیشن روک کر ایک غیر ضروری تنازعہ کھڑا کیا اور اپنے اور فوج کے درمیان ایک کھنچائوکی صورتحال پیدا کر دی، آئندہ بدھ کو یعنی دو دن کے بعد نوٹیفیکیشن جاری کر دیں گے۔
جب پاکستان کے حالات دیکھتا ہوں اور خراب معیشت اور انتہا لیول کی مہنگائی کے بارے میں سوچتا ہوں تو بہت پریشانی ہوتی ہے اور پاکستان کے مستقبل کے متعلق ڈر سا محسوس ہوتا۔ یہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ سب سر جوڑ کر پاکستان کو ان مشکلات سے نکالنے او ر اس کے بہتر مستقبل کے لئے اپنے اپنے ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلے کریں۔ اس کے لیے وزیر اعظم عمران خان کا کردار اہم ہو سکتا ہے لیکن وہ چور ،چور ڈاکو، ڈاکو اور این آر او نہیں دوں گا کے جنون سے ہی باہر نہیں نکل رہے۔ اور حالات ہیں کہ بد سے بدتر ہوئے جا رہے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)
جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔