Time 21 اکتوبر ، 2021
بلاگ

خدا خیر کرے!

گزشتہ سوا تین برسوں میں عمران خان سے علی امین گنڈا پور تک ہرروز ریاستِ مدینہ کی باتیں، آئے روز رسول ؐ اللہ کی مثالیں، ہر دوسرے دن صحابہ کرام ؓ کے تذکرے، سیاسی بھاشنوں کو ایسے مذہبی تڑکے کہ جنرل ضیاء الحق کی یادیں تازہ ہوجائیں،

یقین جانیے سوا تین برس میں ریاستِ مدینہ کے دعویداروں نے اتنی ایک جیسی تقریریں کی ہیں کہ کان پک گئے، بچے بچے کو یہ تقریریں زبانی یاد ہوگئیں، اب ایک طرف یہ سہانے سپنوں بھری تقریریں جبکہ دوسری طرف گورننس، پرفارمنس ایسی کہ کہیں بے روزگاری کی و جہ سے باپ بچوں کو کنویں میں پھینک کر خود بھی چھلانگیں مار رہے تو کہیں غربت کی وجہ سے ماں 25ہزار میں بیٹی بیچ رہی، 

کہیں مہنگائی کی وجہ سے گھر کا خرچہ چلانے، بجلی،گیس کے بل، بچوں کی اسکول فیس دینے کیلئے لوگ بیٹیوں کا جہیز بیچ رہے تو کہیں بڑے بڑے سفید پوش ہاتھ پھیلانے پر مجبور، کہیں تنخواہ دار طبقہ سرپیٹ رہاتو کہیں مڈل کلاس اپنی موت آپ مررہی،اب اگر ان برے حالات کی طرف ریاستِ مدینہ والوں کی توجہ دلائی جائے تویہ بڑے اطمینا ن سے فرمائیں، یار2 کی بجائے ایک روٹی کھالو، کھانا کھاتے 9نوالے کم کھامرلو،چائے کے کپ میں 9دانے چینی کم ڈال لو، ذرا یہاں رکیے،

 یاد آیا، 9نوالے کم کھانے، چائے کے کپ میں 9چینی کے دانے کم ڈالنے اور پیٹ پر پتھر باندھنے کا مشورہ دینے والے علی امین گنڈاپور کی سوشل میڈیا پر ایک تصویر دیکھی، موصوف چندمصاحبین کے ساتھ کھانا کھا رہے، تصویر میں ڈشیں گنیں تو12نکلیں، قوم چائے میں چینی کے 9دانے کم ڈالے،9نوالے کم کھائے،پیٹ پر پتھر باندھے جبکہ اپنا کھانا درجن بھر ڈشز پر مشتمل، سبحان اللہ، اب آپ ہی بتائیے اس جھوٹ، منافقت کے بعد بھی ریاستِ مدینہ کے دعوے ہوں، رسولؐ اللہ کی مثالیں دی جائیں، صحابہ کرام ؓ کے حوالے دیئے جائیں، مذہبی بھاشن ٹھوکے جائیں تو بندہ یہی کہہ سکتا ہے، توبہ اللہ توبہ۔

اچھا باقی سب چھوڑیں،چند دن پہلے تقریر فرماتے فرماتے اچانک عمران خان نے فرمایا، حضرت عمر ؓ نے دورانِ جنگ اپنے سپہ سالار خالد بن ولیدؓ کو تبدیل کردیاتھا، اب یہ چھوڑیئے خان صاحب یہ کسے سنارہے تھے،یہ بھی رہنے دیں کہ حضرت عمرؓ نے دوران جنگ خالد بن ولید ؓ کو کیوں تبدیل کیا،خان صاحب سے پوچھنا یہ، آپ نے اتنی دیدہ دلیری سے حضرت عمرؓ کی مثال تو دیدی، 

لیکن کیاآپ کو حضرت عمرؓ کی باقی زندگی، حکمرانی کا بھی علم یا صرف یہی ایک مثال یاد، خان صاحب اطلاعاً عرض ہے کہ حضرت عمرؓ 20پاکستانوں سے بھی بڑی سلطنت کے حاکم، ا میر المومنین تھے،لیکن ان کا عدل ایسا تھا کہ جرم ہونے پر بیٹے کو کوڑے مارے، یہ نہیں کہ ہیلی کاپٹر کیس،مالم جبہ، بی آر ٹی، آٹا گندم، چینی، پٹرول گھپلوں، نجی بجلی گھر ڈاکوں پر آنکھیں موندلی جائیں، سانحہ ماڈل ٹائون بھلا دیاجائے، 

سانحہ ساہیوال کے مجرم پتلی گلی سے نکال دیئے جائیں، خان صاحب حضرت عمرؓ تین سو کنال کے گھرمیں نہیں رہتے تھے، خان صاحب حضرت عمرؓ سرکاری خرچ پر روزانہ دفتر سے گھر اور گھرسے دفتر ہیلی کاپٹر پر نہیں آیا، جایا کرتے تھے( تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں حضرت عمرؓ ، ان کے اہل وعیال نے بیت المال کے ملکیتی کسی اونٹ، گھوڑے، خچر کا ذاتی استعمال کیاہو) خا ن صاحب حضرت عمرؓ نے کبھی اپنی کہی باتوں سے مکرنے، یوٹرن لینے کو عظیم لیڈ ر کی پہچان قرار نہیں دیا،خان صاحب حضرت عمرؓ کبھی کوئی ایسا آرڈیننس نہیں لائے، کبھی کسی قانون میں ایسی ترمیم نہیں کی کہ اپنے، پرائے کرپٹ مستفید ہوجائیں، کرپشن حلال ہوجائے ،

 خان صاحب حضرت عمرؓنے ہر حکومتی عہدہ میرٹ پر دیا،کبھی کسی عہدے پراپنے چہیتے، لاڈلے کو نہیں بٹھایا،، خان صاحب حضرت عمرؓ کی گورننس، پرفارمنس ایسی تھی، فرمایا کرتے’’اگر فرات کے کنارے کتا بھی بھوک سے مرے تو ذمہ دار میں‘‘(خان صاحب آپ ذرااپنی مخولیا قسم کی گورننس،پرفارمنس دیکھ لیں)خان صاحب حضرت عمرؓ نے حکمرانی کے ہر شعبے میں تاریخ ساز اصلاحات کیں، سوا تین سال ہوگئے آپ کو حکمران بنے، ان جیسی کوئی ایک اصلاح بھی کرپائے،حالانکہ آپ آ ئے تواصلاحات کیلئے تھے، خان صاحب کبھی ایک مرتبہ بھی آپ نے حضرت عمرؓ کی طرح ایک رات جاگ کر گلی محلوں میں پھر کر اپنی رعایا کی خبر لی کہ وہ کس حال میں،خان صاحب حضرت عمرؓ کے دور میں بے روزگاری، غربت اور مہنگائی کا یہ عالم نہیں تھا جو آپ کے دور میں ہے،

 خان صاحب حضرت عمرؓ کا ہر حکومتی عہدیدار عہدہ سنبھالتے وقت اپنے اثاثے ڈکلیئر کرتا اور پھر عہدہ چھوڑتے وقت بتاتا کہ اس وقت اس کے پاس کیا کچھ ہے،آپ ذرا اپنے چہیتوں، لاڈلوں پر نظر ماریں، بہت سارے ایسے کہ سوا تین برس میں ہی اتنا کما چکے کہ دیکھ کر بندے کے ہوش ٹھکانے آجائیں، مگرخان صاحب مجھے پتا آپ اپنوں، اپنے اردگرد بیٹھے مافیاز پر ہتھ ہولا ہی رکھیں گے، جیسے جہانگیر ترین سے پنڈورا لیکس تک آپ نے اپنوں پرہتھ ہولا رکھا، کیونکہ آپ کو اپنا اقتدار عزیز، آپ اب اپنے اقتدار کیلئے کچھ بھی کرنے پرتیار، خان صاحب حضرت عمرؓ نے اپنے کُرتے،چادر کا بھی حساب دیا جبکہ آپ باقی چھوڑیں، توشہ خانہ مطلب تحفوں کا ہی نہیں بتار ہے، لہٰذامیرے پیارے خان صاحب خیال کیا کریںآپ کے منہ سے حضرت عمر ؓ کی مثالیں نہیں جچتیں۔

لیکن پھر سوچوں، خان صاحب کا کیاقصور، یہ ہمارے اعمال، ہمارے کرتوت، ہمارا کردار کہ ہمارے نصیبوں میں خان صاحب جیسے، ذرا سوچئے جہاں بادشاہی مسجد سے نعلین مبارک چوری ہوجائیں، جہاں محفل میلادمیں جیبیں کٹ جائیں، جہاں حج، عمروں میں فراڈ ہوں، جہاں حج، عمروں سے واپسی پر ائیر پورٹ سے حاجی ایک دوسرے کا زمزم چرالیں، جہاںمسجدوں، مدرسوں، اسکولوں میں جنسی زیادتیاں ہورہی ہوں، جہاں یتیم کا مال کھا لیا جاتا ہو، جہاں زکوٰۃ، صدقے کے پیسے ہڑپ کر لئے جاتے ہوں،

جہاں بہنوں کا حق نہ دیا جاتاہو، جہاں سگے چاچوں، ماموں سے بھانجی، بھتیجیاں اور سگے باپ سے بیٹیوں کی عزتیں محفوظ نہ ہوں، جہاں بیٹے ماؤں کو تھپڑ مار رہے ہوں وہاں ہمیں خان صاحب جیسے ہی ملیں گے، لہٰذا ایک خان صاحب جاتا ہے، دوسرا اس کا باپ خان صاحب آجاتا ہے،مطلب نہلے پہ دہلا، ایک خان صاحب آیا، میں روٹی، کپڑا، مکان دوں گا، نتیجہ صفر،ایک خان صاحب آیا میں ملک کو ایشین ٹائیگر بنادوں گا، نتیجہ صفر، ایک خان صاحب آیا،قرض اتارو،ملک سنوارو، نتیجہ صفر، اب ایک خان صاحب ریاست مدینہ بنارہا،خدا خیر کرے۔


جیو نیوز، جنگ گروپ یا اس کی ادارتی پالیسی کا اس تحریر کے مندرجات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔